1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن، مزید کوششوں کی ضرورت

عنبرین فاطمہ، کراچی
25 نومبر 2018

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 25 نومبر خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی روک تھام میں اب تک کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

https://p.dw.com/p/38rxd
Artikel 522 Strafgesetz in Libanon Frauen Feminismus Libanon Gewalt gegen Frauen sexuelle Belästigung
تصویر: DW/K.Zein-Eddine

انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے والے معروف ایڈوکیٹ ضیاء احمد اعوان کے مطابق خواتین کے حالات میں بہتری نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ملک میں خواتین سے متعلق معاملات کا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ ہونا ہے، ’’صرف یہ ہی دیکھ لیں کہ ملک میں کتنی ورکنگ وویمن سامنے آرہی ہیں، ان کے تحفظ کے لیے کوئی ایسے بڑے اقدامات نہیں ہو رہے اور نہ ہی مجموعی سطح پر خواتین کے خلاف پُر تشدد ذہنیت کا خاتمہ نظر نہیں آرہا اور نہ ہی کوئی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ وجہ یہ ہی ہے کہ ہم اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں کر رہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، ’’اس کے باوجود اگر بجٹ دیکھ لیں تو اس میں خواتین کے لیے کچھ نہیں ہے اور ان کے لیے جو ادارے بنے ہیں وہ صرف تنخواہوں، بلوں اور گاڑیوں کے لیے پیسے استعمال کر رہے ہیں۔  ان کی کوئی خدمات نہیں ہیں۔ پھر یہ ادارے جواب دہ نہیں ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ انہوں نے اپنی خدمات کتنے لوگوں کو فراہم کیں یا جو بجٹ تھا وہ کہاں خرچ ہوا۔ لہذا جب تک ان کے نظام کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، خواتین کے حوالے سے بہتری نظر نہیں آئے گی۔‘‘

Projekt UN/SICHTBAR Ann-Christine Woehrl

گزشتہ برس صوبہ پنجاب میں تشدد کی شکار خواتین کو پناہ دینے والے ملک میں اپنی نوعیت کے واحد ادارے، وائلینس اگینسٹ وویمن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ کے تحت ملتان میں قائم کردہ اس سینٹر کا مقصد خواتین کو پُر تشدد جرائم خصوصاً گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور جنسی حملوں سے بچانے میں مدد اور پناہ  فراہم کرنا ہے۔

اس سینٹر کے مطابق صرف سات ماہ کے قلیل عرصے میں یہاں 2588 کیس درج کروائے گئے، جن میں 1600 گھریلو تشدد، 234 ہراسگی، 65 ریپ اور 147 قتل کی دھمکیوں کے واقعات شامل ہیں۔

خواتین کے خلاف تشدد اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے ملک میں کئی قوانین بنائے گئے، کئی ایکٹس بنے، وہ مددگار ثابت کیوں نہیں ہو رہے؟ اس پر بات کرتے ہوئے ضیاء اعوان کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں قوانین بنانے کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے اور اب صوبائی سطح پر بھی قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن اصل مسلئہ آتا ہے ان کے نفاذ کا۔ صرف خواتین اور بچوں سے متعلق نہیں بلکہ مجموعی طور پر قانون کی عملداری نہیں ہے۔ قوانین صرف کتابوں میں درج نظر آتے ہیں اور اب پر عملداری اب تک کسی حکومت کی ترجیحات میں نظر نہیں آیا ہے۔‘‘

Protest gegen sexuelle Gewalt in Indien
تصویر: picture alliance/dpa/O. Anand

سندھ حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2017 ء سے اپریل 2018 ء تک خواتین پر تشدد کے 1643 واقعات سامنے آئے جبکہ رپورٹ نہ کیے جانے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان حالات کے باوجود ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں خواتین کو پناہ دینے والے ادارے نہ صرف تعداد میں نہایت کم ہیں بلکہ خواتین کو تحفظ اور مدد دینے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔

 اس وقت سندھ میں سرکاری سطح پر صرف سات شیلٹر ہومز موجود ہیں، جن میں سے پانچ کراچی، ایک حیدرآباد اور ایک سکھر میں قائم ہے۔حکومت کی جانب سے خواتین کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے والے اداروں کے غیر موثر اور غیر فعال ہونے کا اقرار سرکاری سطح پر بھی کیا جارہا ہے۔

خواتین کے حوالے سے قانونی سفارشات مرتب کرنے والے سرکاری ادارے، سندھ کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی چیئرپرسن نضحت شیریں کے مطابق اگر سندھ کی بات کی جائے تو یہاں شیلٹر ہاؤس یا دارالامان بنے تو ہیں لیکن جب ان کو جانچا گیا تو پتہ چلا کہ ان کا کام نہ صرف غیر تسلی بخش ہے بلکہ صرف کاغذ پر نظر آتا ہے، ’’ان سے کسی کی مدد نہیں ہو رہی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے چند اقدامات کیے ہیں اور اب ہم ایسے متبادل طریقہ کار بنا کر دے رہے ہیں، جو جنسی بنیاد پر ہونے والے تشدد سے عورتوں اور بچیوں کو بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘‘

ان کے بقول اب تک جو پناہ دینے والے ادارے بنے ہوئے ہیں وہ عدالت کے حکم پر ضلعی کمشنروں کے زیر نگرانی تھے اور ان میں سے اکثر مناسب مدد فراہم نہیں کر رہے اور ان کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے،’’ نہ تو یہاں وسائل موجود ہیں اور نہ ہی بجٹ میں ان کے لیے رقم موجود ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں بنا دی گئی ہیں، جہاں دس سے پندرہ خواتین موجود ہیں اور انہیں بھی مناسب قانونی مدد حاصل نہیں ۔‘‘

نضحت شیریں کے مطابق اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے نئی سفارشات تیار کی جا رہی ہیں، " ہم نے سندھ کی مختلف جیلوں کا بھی معائنہ کیا ہے، جس کے بعد ہم نے اس پر زور دیا کہ ہر ضلع میں موجود ان جیلوں کا ماحول ہی کم از کم ایسا بنایا جائے کہ خواتین سہولت سے بغیر کسی جھجھک رپورٹ درج کروا سکیں۔ اس کے علاوہ ایک اور منصوبے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔‘‘

سندھ کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی چیئرپرسن نے مزید کہا کہ شیلٹر ہومز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا اور وہاں موجود تربیت یافتہ عملہ خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے میں بھی فعال کردار ادا کرے گا۔

پاکستانی’کِم کارداشیان‘ کا المیہ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں