1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلائی جہاز تین برس بعد جاگ اٹھا

افسر اعوان23 جنوری 2014

ایک دمدار ستارے کا پیچھا کرنے والے خلائی جہاز کی طرف سے تین برس بعد زمینی اسٹیشن کو پہلی مرتبہ سگنل موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدان اس خلائی جہاز کو دمدار ستارے پر اتارنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Aw6l
تصویر: picture-alliance/dpa

یورپی خلائی ایجنسی کو اپنے ’روزیٹا‘ نامی خلائی جہاز کی طرف سے انتہائی واضح پیغام پیر 20 جنوری کو عالمی وقت کے مطابق شام 6 بج کر 18 منٹ پر موصول ہوا۔ یہ سگنل 800 ملین کلومیٹر کی دوری سے بھیجا گیا تھا۔

بغیر انسان کے سفر کرنے والے اس خلائی جہاز کے خوابیدہ نظام اپنے ایک دہائی طویل مشن کے آخری حصے میں جگائے گئے۔ اس خلائی جہاز کو دراصل 67P/Churyumov-Gerasimenko نامی کومٹ یا دمدار ستارے سے جا کر ملنا تھا۔

یہ خلائی جہاز ایک دہائی قبل اس مشن کے لیے روانہ کیا گیا تھا
یہ خلائی جہاز ایک دہائی قبل اس مشن کے لیے روانہ کیا گیا تھاتصویر: AP

اس خلائی جہاز کے نظاموں کی الیکٹرک پاور 2011ء میں توانائی بچانے کی غرض سے کم کر دی گئی تھی جس کے بعد یہ خلائی جہاز زمین تک کوئی سگنل نہیں بھیج رہا تھا اور نتیجتاﹰ سائنسدان اس بات سے بے خبر تھے کہ اس جہاز کی صورتحال کیا ہے اور یہ کہ کیا اس سے دوبارہ رابطہ ممکن ہو بھی پائے گا یا نہیں۔

زمینی اسٹیشن سے بھیجے گئے کوڈز کے بعد روزیٹا کے نظاموں کے کام شروع کرنے اور اس کے زمین سے اتنے زیادہ فاصلے پر ہونے کے باعث اس خلائی جہاز سے سگنل کی جلد سے جلد بھی آمد عالمی وقت کے مطابق شام 5:30 پر متوقع تھی۔ جرمن شہر ڈامشٹٹ میں قائم یورپی اسپیس ایجنسی ESA کے کنٹرول میں ان سگنلز کی واپسی کا انتظار کرنے والے جہاز کے آپریشن منیجر آندریا آکومازو Andrea Accomazzo کے بقول، ’’میرے خیال میں یہ میری زندگی کا طویل ترین گھنٹہ تھا۔۔۔ اب ہم پھر اس خلائی جہاز سے رابطے میں ہیں۔‘‘

رواں برس نومبر میں یہ اس جہاز کے ساتھ منسلک فِلائے Philae نامی یہ پروب یا حصہ اس دمدار ستارے کے مرکزے میں موجود برفانی سطح پر اترے گا
رواں برس نومبر میں یہ اس جہاز کے ساتھ منسلک فِلائے Philae نامی یہ پروب یا حصہ اس دمدار ستارے کے مرکزے میں موجود برفانی سطح پر اترے گاتصویر: ESA

روزیٹا کے نظاموں کے دوبارہ کام کرنے کا عمل دراصل اس خلائی جہاز کے 67P نامی دمدار ستارے سے جا کر ملنے سے قبل کا اہم ترین مرحلہ تھا۔ یہ خلائی جہاز رواں برس گرمیوں میں اس دمدار ستارے سے محض چار کلومیٹر کی دوری پر پہنچ کر اس کی سطح اور اس میں موجود گیسوں کے بارے میں معلومات جمع کرے گا اور پھر رواں برس نومبر میں یہ اس جہاز کے ساتھ منسلک فِلائے Philae نامی یہ پروب یا حصہ اس دمدار ستارے کے مرکزے میں موجود برفانی سطح پر اترے گا۔

یہ پروب دمدار ستارے کی سطح سے سیمپلز حاصل کر کے مختلف انسٹرومنٹس کے ذریعے ان کا تجزیہ کرے گا اور اس کے نتائج زمینی اسٹیشن کو روانہ کرے گا۔ گو یہ خلائی جہاز ایک دہائی قبل اس مشن کے لیے روانہ کیا گیا تھا مگر سائنسدانوں کے مطابق یہ خلائی جہاز اور اس سے منسلک فلائے نامی پروب پر انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے حامل انسٹرومنٹس موجود ہیں۔ انہی میں سے ایلِس ALICE نامی ایک خاص کیمرہ بھی ہے جو دمدار ستارے پر موجود کیمیائی مادوں کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس خلائی مشن سے انہیں مذکورہ دمدار ستارے کی ساخت اور ہیئت کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی جن کے ذریعے انہیں اس دمدار ستارے کے ماخذ اور نظام شمسی میں وقت کے ساتھ پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی حاصل ہو گی۔