1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حکومت کشمیر میں عائد پابندیوں پر نظر ثانی کرے‘ سپریم کورٹ

10 جنوری 2020

بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر میں عائد مختلف طرح کی پابندیوں کے خلاف دائر ہونے والی عرضیوں پر سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ غیر معینہ مدت تک انٹرنیٹ پر پابندی طاقت کا بے جا استعمال ہے۔

https://p.dw.com/p/3VzAY
Indien Protest von Journalisten in Kaschmir
تصویر: AFP/T. Mustafa

عدالت عظمی نے کشمیر میں عائد تمام پابندیوں پر ایک ہفتے کے اندر نظر ثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے کرفیو جیسی بندشیں عائد کی تھیں۔ انٹرنیٹ پر اب بھی مکمل پابندی  عائد ہے، عوام کی نقل و حرکت محدود ہے اور بیشتر سیاسی رہنما بدستور قید میں ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت ایسی تمام پابندیوں کی تفصیلات فراہم کرے تاکہ ان کی قانونی جوازیت کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکے۔

سپریم کورٹ نے انٹرنیٹ کو آزادی اظہار کا اہم حصہ قرار دیتے ہوئے حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کی اور کہا، ’’آزادنہ نقل و حرکت، انٹرنیٹ اور بنیادی آزادیوں کو معطل کرنے کے لیے مرضی کے مطابق طاقت کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ محض ان وجوہات کی بنا پر کہ رائے مختلف ہے یا پھر حکومت کے فیصلوں کے مطابق نہیں، انٹرنیٹ کو معطّل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

Indien Polizei Polizist mit Waffe
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو انٹرنیٹ کی معطّلی مختصر وقت کے لیے ہو سکتی ہے تاہم ایسے فیصلوں پر عدالتوں کے جائزے اور حکوت کی نظر ثانی ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے دفعہ 144 کے بار بار نفاذ پر بھی سخت نکتہ چینی کی اور کہا کہ نو آبادیاتی دور کے اس قانون کا استعمال عوامی اجتماعات کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تین رکنی عدالتی بینچ نے کہا،’’اختلاف رائے کو دبانے کے لیے بطور آلہ اس قانون کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔" عدالت کا کہنا تھا کہ سلامتی اور آزادی کے درمیان توازن ہونا لازمی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پابندیوں کے خلاف کئی اہم  افراد نے عرضیاں دائر کی تھیں، جن میں کشمیر ٹائم کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کا نام سر فہرست ہے۔ بھسین نے فیصلے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں انٹرنیٹ سے متعلق بعض رہنما اصول وضع کر دیے ہیں،’’انٹرنیٹ کو آزادی رائے کے تحت بنیادی حقوق میں شامل کیا گيا، طویل مدت کے لیے انٹرنیٹ بند نہیں کیا جا سکتا اور حکومت اپنی مرضی کے مطابق جب چاہے پابندی عائد نہیں کر سکتی بلکہ اس کا قانونی جواز اب لازمی ہوگيا ہے۔‘‘

لیکن انورادھا نے اس بات افسوس کا اظہار کیا کہ عدالت نے پانچ ماہ  بعد اس پر سماعت کی،’’اس مدت میں میڈیا کا کام بہت بری طرح سے متاثر ہوا، لیکن عدالت نے ابھی صرف نظر ثانی کی بات کہی ہے، فیصلہ کیا ہو گا، کب ہو گا کچھ پتہ نہیں، تو فی الحال کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔‘‘

وادی کشمیر میں گزشتہ پانچ ماہ  سے جاری پابندیوں سے ہر سطح پر کاروبار متاثر ہوا، جس سے ریاست کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ کشمیری ایوان صنعت و تجارت کے صدر شیخ عاشق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''حکومت کی بندشوں اور پابندیوں سے کشمیر کی تمام صنعتیں دم توڑ رہی ہیں اور ایک بڑا طقبہ بے روزگار ہو کر رہ گيا ہے۔ اب تک تقریباً اٹھارہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔‘‘

بھارتی حکومت نے جب سے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا ہے تب سے وادی میں بیشتر سماجی و سیاسی سرگرمیاں پوری طرح ٹھپ ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر یہ پابندیاں ضروری ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کے اقدامات کے خلاف لوگوں میں بہت غصہ ہے اور انہیں جو زخم ملا ہے اس کا فوری علاج ممکن نہیں۔

بھارتی کریک ڈاؤن سے کشمیر میں مذہبی آزادی بھی متاثر

ص ز  / ع ا