1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حامد کرزئی کادورہ بھارت

3 فروری 2011

طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات کے پس منظر میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھارتی رہنماوں سے ملاقات کی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے طریقہ کار پر بات چیت کی۔

https://p.dw.com/p/109rz
حامد کرزئی نے اپنی بھارتی ہم منصب پرتبھا پاٹل سے ملاقات کیتصویر: AP

افغان صدر حامد کرزئی حالانکہ نئی دہلی میں پائیدار ترقی کے موضوع پر منعقدہ تین روزہ اجلاس کے افتتاحی پروگرام میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ جرمنی کے شہر میونخ روانہ ہونے سے قبل جمعرات کے روز حامد کرزئی نے اپنی بھارتی ہم منصب پرتبھا پاٹل اور وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات کی اور باہمی اور علاقائی امور کے علاوہ ملک کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

خیال رہے کہ بھارت مختلف وجوہات کی بناء پر افغانستان حکومت میں طالبان کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ لیکن اب، جب کہ طالبان کا حکومت یا قومی دھارے میں شامل ہونا نا گزیر ہوچکا ہے تونئی دہلی نے اپنی پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے۔ نئی دہلی کے مطابق طالبان کے قومی دھارے میں شمولیت کا عمل جامع اور شفاف ہونا چاہئے اور اس میں کسی طرح کی بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اسی صورت میں ایک جمہوری‘ مستحکم‘ اور خوشحال افغانستان کی کامیابی ممکن ہے۔

افغان امور کی ماہر اور مشہور تھنک ٹینکIDSA سے وابستہ ڈاکٹر اسمرتی پٹنائک کا کہنا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں خاصے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حالانکہ پشتون غلبے والے علاقوں میں اس کی ترقیاتی کاموں کی وجہ سے سابقہ شمالی اتحاد میں اسے ایک دوست کی طرح دیکھا جاتا ہے لیکن چونکہ حامد کرزئی کے متنازعہ انتخاب، ان کی حکومت کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات اور اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی ان کی کوششوں نے انکی حکومت کو بیرون ملک غیرمقبول بنادیا ہے اور ان پر نکتہ چینی ہورہی ہے۔ ایسے میں کرزئی کی حمایت کی وجہ سے پشتون رہنماوں میں بھارت کے تئیں بداعتمادی پیدا ہورہی ہے۔

Afghanistan Indien Präsident Hamid Karsai Manmohan Singh
حامد کرزئی نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ باہمی اور علاقائی امور کے علاوہ ملک کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیال کیاتصویر: AP

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی تعمیراتی اور آبادکاری کی سرگرمیوں کے بلاشبہ ہرحلقے معترف ہیں لیکن طالبان کی واپسی کی صورت میں نئی دہلی کے پاس کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل نہیں ہونے کی وجہ سے وہ مزید سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ گوکہ یہ بات طے ہے کہ افغانستان میں مستقبل کا سیاسی ڈھانچہ، جو بھی ہو طالبان پہلے کی طرح طاقتور نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ بہر حال برقرار ہے، جو بھارت کے لئے تشویش کا موجب ہے۔ بھارت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ طالبان کی حکومت میں واپسی کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔

اسمرتی پٹنائک کا کہنا ہے کہ بھارت کوخطے کے ان ملکوں کے ساتھ، جواسی طرح کے خدشات سے دوچار ہیں، مل کرکوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعاون کی کئی صورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان حمایت یافتہ انتہاپسند عناصر کو افغانستان میں اہم عہدوں پرفائز ہونے سے روکنا ہے۔ اس کے علاوہ تجارت اور راہداری کے لئے پاکستان پر افغان حکومت کے انحصار کو کم کرنا بھی ایک متبادل ہو سکتا ہے۔ اسمرتی پٹنائک کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس معاملے میں قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔

حامد کرزئی نے پائیدار ترقی کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں گذشتہ تیس برسوں سے جاری بے چینی اور تباہی کی وجہ سے ماحولیات کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے لیکن تشدد اور خونریزی کے باوجود ماحولیات کو بچانے اور بہتر بنانے کے لئے تمام ممکنہ کوششیں کی جارہی ہیں۔

Karte Region: Pakistan, Indien, Afghanistan und Kaschmir

دوسری طرف وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے حامد کرزئی سے ملاقات کے دوران کہا کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان قدیم ثقافتی تعلقات ہیں۔انہوں نے کہا کہ” ہم افغانستان کو ملکوں کے درمیان بالادستی کی جنگ کا میدان نہیں دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ ہماری دلچسی ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کے قیام میں ہے۔ بھارت افغانستان کو اس کے اداروں اور انسانی وسائل کی تعمیرکے لئے تعاون کا سلسلہ جاری رکھے گا“۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہےکہ اس خطے اور دنیا کی تمام طاقتیں افغان حکومت کو ملک کی تعمیر نومیں بھرپور مدد کریں۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے افغانستان درپیش چلینجز کا سامنا کرسکتا ہے۔

دریں اثنا تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو ممالک افغانستان میں اپنی بالادستی کی جنگ میں مصروف ہیں انہیں اپنا یہ کھیل بند کرنا چاہئے اور افغانستان میں امن و استحکام اور خوشحالی کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرنا چاہئے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں