1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جیمز ویب ٹیلی سکوپ اور کائنات کے پوشیدہ راز

31 دسمبر 2021

دس ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کی جانی والی دنیا کی سب سے بڑی دوربین جیمز ویب ٹیلی سکوپ 25 دسمبر 2021 کو لانچ کی گئی۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ منصوبہ اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟

https://p.dw.com/p/451QF
تصویر: Mansoor Ahmad/NASA

25 دسمبر 2021  کو پاکستانی وقت کے مطابق  شام 5بج کر 20 منٹ پر تاریخی اہمیت کی حامل جیمز ویب ٹیلی سکوپ   کو فرینچ گنی سے  لانچ کیا گیا ۔  یہ ناسا، یورپیئن اسپیس ایجنسی، اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ ہے جو تقریبا 30 سال کے عرصے میں 10 ارب ڈالر کے خطیر سرمایے   سے مکمل ہوا ہے۔ اس دوربین کا نام  امریکی خلائی تسخیر کے پروگرام  اپولو کے بانیان  میں سے ایک '' جیمزایڈون  ویب ‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔

یورپیئن اسپیس ایجنسی کے راکٹ نے اسے خلا  (ڈیپ سپیس )میں چھوڑا۔ اب یہ دوربین اپنے مستقل مقام  کی جانب محو سفر ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ''لیگرینج ٹو‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ مقام زمین سے  15 لاکھ کلومیٹر کے  فاصلے پر ہےجہاں  تک پہنچنے میں اسے 28 دن لگے گیں۔

کیا  جیمز ویب ٹیلی سکوپ ہبل دور بین  کا متبادل ہے؟

غیر سائنسی  حلقوں میں عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ،  1990 میں خلا میں بھیجی جانے والی ہبل دور بین کا متبادل ہے۔اس کی حقیقت جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے  ناسا گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر  کے انجینئر  منصور احمد سے بات کی ہے جن کا تعلق پشاور سے اور وہ گزشتہ 25 برس سے ناسا  سے وابستہ ہیں۔ 

منصور احمد نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ ''ہبل ٹیلی سکوپ پروگرام‘‘ میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے گزارا ہے، جس میں فلائٹ آپریشن مینیجر اور پروجیکٹ مینیجر کے عہدے قابل ذکر ہیں۔ وہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ڈپٹی پروجیکٹ مینیجر بھی رہ چکے ہیں۔

منصور احمد  نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہبل اور جیمز ویب دونوں دوربینیں سائنس کا ہی نہیں انجینئرنگ کا بھی ایک شاہکار ہیں۔ ہبل وہ دور بین ہے جسے   پہلی دفعہ  زمین کے ماحول سے اوپر بلندی پر نصب کیا گیا تھا لہذا  اس کے ذریعے دن اور رات کی تخصیص کے بغیر مشاہدات ممکن تھے۔ 

ہبل ٹیلی سکوپ آپٹیکل ہے، جبکہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ انفراریڈ روشنی کے لیے ہے۔ ا یسٹرو فزکس میں مزید تحقیقات کے لیے ہبل اور جیمز ویب دوربین دونوں ہی یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر ہبل سے انفرا ریڈ روشنی کو دیکھنا ممکن نہیں تو دوسری طرف جیمز ویب سے آپٹیکل اور الٹرا ویولٹ( بنفشی)روشنی کو نہیں دیکھا جا سکتا۔

 منصور احمد  کے مطابق وہ  سمجھتے  ہیں کہ یہ دونوں مل کر مستقبل میں کائنات کے بہت سے معموں کو حل کرنے کا سبب بنیں گی۔  ہبل اب تک بلکل ٹھیک کام کر رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق  یہ اگلے پانچ سال تک فعال رہ سکتی ہے۔ دنیا بھر  سے  اسپیس اور فلکیاتی سائنس کمیونیٹیز  اس دن کی بے چینی سے منتظر ہیں جب یہ دونوں دور بینیں ایک ساتھ کام کریں گی۔

ہبل دوربین  نے کائنات کو سمجھنے میں کتنی معاونت کی؟

منصور  احمد بتاتے  ہیں کہ رات میں ہم سادہ آنکھ سے جو ستارے دیکھ سکتے ہیں وہ ہماری ملکی وے گلیکسی کا حصہ ہیں ۔ ہماری کائنات میں مو جود دیگر کہکشائیں ہم سے بہت زیادہ فاصلے پر ہیں اس لیے ان کی روشنی زمین تک پہنچ کر بہت مدھم ہو جاتی ہے۔  ان کہکشاؤں کی تصاویر لینے کے لیے ہبل کا فوکس کئی روز تک ایک ہی مقام پر رکھا جاتا ہے۔

 اسے یوں بہتر سمجھ سکتا ہے کہ اگر گھپ اندھیرے میں تصویر لینی ہو تو نہ صرف بہت دیر تک کیمرے کا شٹر کھلا رکھنا ہوگا بلکہ فوکس بھی ایک جگہ رکھنا ہوگا اور پھر بھی تصویر دھندلی آئے گی۔ ہبل کو ان اجسام پر مرکوز رکھا جاتا ہےجو زمین سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں جبکہ یہ دوربین خود بھی 18 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش میں ہے۔ مشاہدات کے دوران اس کے فوکس کو اعشاریہ کی حد تک بھی نہیں ہلایا جاتا۔

ہبل دوربین سے حاصل ہونے والے نتائج ابتداء ہی سے حیران کن رہے ہیں۔ اس سے  حاصل ہونے والی پھٹتے ستاروں اور آپس میں مدغم ہوتی کہکشاؤں کی بے شمار تصاویر اس قدر انوکھی ہیں کہ سائنس میں دلچسپی نہ رکھنے والا شخص بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہی میں سے ایک 'ہبل ڈیپ فیلڈ ‘کی تصویر ہے۔ اس کو لیتے وقت فیصلہ کیا گیا  تھا کہ دوربین کو ایک مخصوص تاریک مقام پر فوکس رکھا جائے گا جہاں سادہ آنکھ سے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔

گیارہ  دن تک ہبل اس مقام پر تصاویر ڈیٹیکٹ کرتی رہی اور جو آخری تصویر حاصل ہوئی  اسے دیکھ کر  سائنسدان حیران رہ گئے۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں روشن اجسام سے بھری پڑی تھی۔ یہ دراصل کہکشائیں تھیں اور ایک کہکشاں کھربوں ستاروں پر مشتمل تھی۔

 جیمز ویب ٹیلی سکوپ  منصوبےکے مقاصد کیا ہیں؟

امریکی خلائی ادارے ناسا کے منتظم  بل نیلسن کہتے ہیں، ''جیمز ویب ٹیلی سکوپ   منصوبہ ایک بہترین مثال ہے کہ جب آپ بڑے خواب دیکھتے ہیں تو خطرہ تو مول لینا پڑتا ہے۔ لانچ سے مکمل فعال ہونے تک  اس منصوبے کو 300 سے زائد ایسے مراحل سے گزرنا ہے جہاں ایک  معمولی سی غلطی سب کچھ برباد کر سکتی ہے۔‘‘

اس حوالے سے پاکستان کے معروف ماہر فلکیات اور ہیمشائر یونیورسٹی  سے وابسطہ ڈاکٹر سلمان حمید کا کہنا ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ اب تک مدار میں بھیجے جانے والے سب سے بڑے  مرر کا استعمال کرے گی جس کا قطر6.5 میٹر ہےجو 18 چھوٹے مرر پر مشتمل ہے ۔ اس مرر کو مکمل طور پر کھلنے میں ہی دو ہفتے درکار ہوں گے۔اس کے مرر کا قطر ہبل سے 5 گنا زیادہ ہے اور  اس کی روشنی کو مرتکز یا جمع کرنے کی صلاحیت بھی   ہبل  سے کہیں زیادہ ہے۔ یعنی یہ وقت میں بہت پیچھے تک سفر کر کےان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی  جو  13.5ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔

ڈاکٹر  سلمان حمید  کے مطابق  جیمز ویب ٹیلی سکوپ میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ زمین سے دور ایگزو پلینٹس (  زمین سے مشابہہ ایسے سیارے جہاں زندگی کی نشونما  ممکن ہو) کے ماحول اور وہاں موجود گیسوں کی جانچ کے ذریعے وہاں زندگی کے شواہد حاصل کر سکے گی۔ واضح رہے کہ ہبل کی لانچ سے  اب تک  سائنسدان 4000 ایگزوپلنٹس دریافت کر چکے ہیں  مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا  یہ پیچیدہ  حیات کی نشونما کے  لئے موزوں ہیں یا نہیں۔ 

چلی میں نصب ہے دنیا کی سب سے طاقت ور ریڈیو دوربین