1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی 20 کانفرنس: مالياتی نظام کی اصلاح ميں کاميابی؟

12 نومبر 2010

جنوبی کوريا کے دارالحکومت سیول ميں بیس صنعتی ممالک اور اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی سربراہ کانفرنس ختم ہوگئی ہے۔ اس کانفرنس کو تاريخی کہا جا سکتا ہے کيونکہ اس ميں آخر کار عالمی مالياتی نظام ميں اصلاحات کا فيصلہ کر ہی ليا گيا

https://p.dw.com/p/Q6qn
سیول منعقدہ جی 20 سربراہ کانفرنستصویر: AP

دو سال پہلے عالمی مالياتی نظام شديد مشکلات کی لپيٹ ميں آيا ہوا تھا۔ ايک بڑا امريکی بينک ليمن بينک ديواليہ ہوچکا تھا اور کئی دوسرے بينک اور مالی ادارے ديواليہ ہونے کے قريب پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد ہی دنيا کے 20 ممتاز اور اُبھرتے ہوئے صنعتی ممالک کے رياستی اور حکومتی سربراہوں کی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا، جن ميں يہ طے کيا گيا کہ مالياتی منڈيوں کو لگام دی جائے گی اور بحران کی شکار ہو جانے والی عالمی معيشت کو دوبارہ اِس حالت ميں لايا جائے گا کہ اُس ميں نمو ہو سکے۔

G20 G-20 Seoul Sitzungssaal NO FLASH
سیول کا وہ ہال، جہاں جی ٹوئنٹی کا اجلاس منعقد ہواتصویر: AP

اب دو برس اور جی ٹوئنٹی کی تين مزيد سربراہ کانفرنسوں کے بعد آج ختم ہونے والی کانفرنس ميں يہ جائزہ ليا جانا تھا کہ اب تک کيا کچھ حاصل ہو سکا ہے۔ دنيا کے طاقتور ممالک نے واقعی مالياتی منڈيوں کی اشد ضروری اصلاحات کے لئے اپنی بھر پور توانائی استعمال کی ہے۔ اس کا اعتراف کيا جانا چاہئے۔ بينکوں کی بہت سرگرم اور فعال لابی کے باوجود نئے کڑے ضوابط پر اتفاقِ رائے ميں دو سال سے بھی کم وقت لگا ہے۔

اب مالی جوڑ توڑ کرنے والوں پر بندشيں عائد کر دی گئی ہيں۔امريکہ ميں وال اسٹريٹ کے لئے بھی اب اُتنے ہی سخت قوانين ہوں گے، جتنے کہ يورپ ميں ہيں۔ يہ صحيح ہے کہ ساری اميديں پوری نہيں ہوئی ہيں اور يہ بھی درست ہے کہ چالاک بينکوں نے کہيں نہ کہيں اپنے لئے کچھ نہ کچھ گنجائشيں ضرور رکھی ہوئی ہيں۔

سیول ميں امريکی صدر اوباما کی بجا طور پر حمايت کی گئی۔ ليکن غور سے ديکھنے اور سننے والوں کو ضرور يہ احساس ہوگيا ہوگا کہ سیول ميں اقتصادی سُپر طاقت کی حيثيت سے امريکہ کے اختتام کا آغاز ہو گيا ہے۔ دنيا کے صف اول کے برآمداتی ممالک چين اور جرمنی پر اوباما کی شديد تنقيد کے خلاف ايک وسيع مزاحمتت ديکھنے ميں آئی۔ جرمنی کی معيشت کی شرح نمو اس وقت اتنی زيادہ ہے کہ امريکہ صرف اس کے خواب ہی ديکھ سکتا ہے۔

جی ٹوئنٹی کو ابھی ايک مربوط عالمی اقتصادی سياست کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ يہ مسئلہ بھی حل طلب ہے کہ پورے نظام کے لئے خطرہ بننے والے بڑے مالی اداروں سے متعلق کيا پاليسی ہونی چاہئے یعنی ايک مالياتی ادارہ آخر کتنا بڑا ہونا چاہئے کہ اُسے too big to fall يعنی اتنا بڑا قرار ديا جائے کہ پورے نظام کو خطرے سے بچانے کے لئے اس ادارے کو بچانا ضروری ہو جائے۔

تبصرہ: ہینیرک بوہمے (سیول)

ترجمہ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی