1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہاں کتاب دوستی بقا کے لیے خطرہ بن جائے، وہاں جیا کیسے جائے؟

مقبول ملک
18 اپریل 2019

پاکستان اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ آج وہ کئی معاملات میں دنیا کے کئی دیگر ممالک سے بہت آگے ہے۔ لیکن اسی جنوبی ایشیائی ریاست سے متعلق چند پہلو ایسے بھی ہیں، جنہیں باعث شرم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقبول ملک کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3H2eV
محمد احسن بٹتصویر: A. Butt

پاکستان اعلانیہ طور پر ایٹمی طاقت کا حامل دنیا کا واحد مسلم ملک ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کی چھٹی سب سے بڑی ریاست اور اپنی تیزی سے جدید تر ہوتی ہوئی شاہراہوں کے باعث دنیا کا اکیسویں سب سے بڑے روڈ نیٹ ورک والا  ملک بھی۔ پاکستان کا بہت بڑا اثاثہ اس کی نوجوان نسل بھی ہے کیونکہ اس کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے، جہاں مجموعی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک امتیاز اور بھی حاصل ہے۔ جتنی اس ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح ہے، اتنی وہاں ناخواندگی میں کمی کی شرح نہیں ہے۔

پاکستان میں کتابیں آج بھی چھپتی ہیں اور لوگ پڑھتے بھی ہیں۔ پاکستان کو کوئی علم دشمن معاشرہ کہنا غلط ہو گا۔ لیکن وہاں پر بہت سے کاروباری اداروں، میڈیا ہاؤسز اور اشاعت گھروں سمیت عام افراد کے عمومی سماجی رویے بھی زیادہ تر اتنے علم دشمن ہیں کہ کوئی کتاب دوست انسان اپنے طور پر علم کی روشنی پھیلانے کو اپنا نصب العین تو بنا سکتا ہے لیکن اس کی دنیاوی خوشحالی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

اس کی ایک واضح مثال ہے، جو اب تک بہت سے پاکستانیوں کے علم میں نہیں لیکن جسے جان کر علم دوست اور کتاب دوست پاکستانیوں سے لے کر پسینہ خشک ہونے سے پہلے معاوضہ ادا کیے جانے کی سوچ کے قائل شہریوں تک ہر کسی کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر لیہ سے تعلق رکھنے والی ایک علم دوست شخصیت ایسی بھی ہے، جس کی عمر اسی مہینے کی یکم تاریخ کو ٹھیک پچاس سال ہو گئی تھی۔

اپنی زندگی کے نصف سے زائد عرصے تک اس شخصیت نے ذرائع ابلاغ، اخبارات، ٹیلی وژن اداروں اور کتابی صنعت کی جتنی خدمت کی اتنی بہت ہی کم دوسرے پاکستانیوں نے کی ہو گی۔ تقریباﹰ ربع صدی قبل اسلام آباد کے ایک علاقائی اخبار سے سب ایڈیٹر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کرنے والے اس پاکستانی نے بعد کے ڈھائی عشروں میں ملک کے دو تین سب سے بڑے میڈیا گروپوں میں شمار ہونے والے ایک ادارے اور اس کے ٹی وی نیٹ ورک سے لے کر کئی معروف پبلشنگ ہاؤسز کے لیے اتنا کام کیا کہ آج ان کی انگریزی سے اردو زبانوں میں ترجمہ کردہ بڑے بڑے ادیبوں اور اہم شخصیات کی لکھی ہوئی اور سیاست، ادب، بین الاقوامی تعلقات، فنون لطیفہ اور تاریخ جیسے شعبوں کا احاطہ کرنے والے کتابوں کی تعداد 60 کے قریب بنتی ہے۔

Malik Maqbool Kommentarbild App für Arabisch
مقبول ملک

اس شخصیت کا نام محمد احسن بٹ ہے جن کو پاکستان کی کتابی صنعت اور کتاب دوست حلقے ایک باصلاحیت میڈیا کارکن، مصنف اور مترجم کے طور پر جانتے ہیں۔ احسن بٹ نے اپنی زندگی میں لاتعداد دن ایسے بھی گزارے ہیں کہ کسی مقامی میڈیا گروپ کے لیے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہالی وُڈ کی کسی فلم کی اردو ڈبِنگ کے لیے اس کا پورے کا پورے اسکرپٹ ترجمہ کر دیا یا پھر چند دنوں میں ہی کسی ایسی نئی اور بہت مشہور کتاب کا قابل اعتماد اردو ترجمہ بھی کر دیا، جسے جلد از جلد مارکیٹ میں لا کر متعلقہ اشاعتی ادارے کا مالک اپنے لیے تعریف اور بہتر آمدنی دونوں کو یقینی بنانا چاہتا تھا۔

المیہ یہ ہے کہ دو ڈھائی ہفتے قبل اپنی عمر کی نصف صدی پوری کرنے والے محمد احسن بٹ گزشتہ کافی عرصے سے بے روزگار ہیں۔ ان کے کام سے کئی کئی ملین کمانے والوں نے انہیں کبھی کوئی مستقل نوکری نہیں دی تھی۔ وہ اس وقت لاہور میں نئے کروڑ پتیوں کی ایک آبادی کے قریب ایک ایسے چھوٹے سے گاؤں میں ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، جس کا اپنا کوئی باقاعدہ نام بھی نہیں ہے۔ احسن بٹ نے اپنی ذات پر اپنے خاندان کی کفالت کی ذمے داری ایسے پوری کی کہ ان کی اپنی شادی کی سوچ کو کبھی کوئی ترجیحی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔

اسی دوران ان کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ وہ لاہور میں ’چِنگ چی‘ پر سفر کے دوران گر گئے اور ان کے دائیں بازو میں ایسی اندرونی چوٹ لگی کہ جو بازو پہلے دن رات لکھتے لکھتے تھک جاتا تھا، اس نے بالکل ہی جواب دے دیا۔ احسن بٹ سگریٹ نہیں پیتے، چائے بھی بغیر دودھ اور چینی کے پیتے ہیں، عجیب سے انسان ہیں، شکایت کرتے ہیں اور نہ ہی انسانیت پر اپنا اعتماد کھو دینے پر تیار ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنی عزت نفس میں ایسے پختہ کار ہیں کہ جب نوبت تقریباﹰ کچھ بھی نہ ہونے تک پہنچ جاتی ہے تو بھی کہتے ہیں، ’’سب کچھ ہے تو۔‘‘

اس دعوے کے باوجود احسن بٹ کے پاس بہت کچھ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ان کے معاوضے کی وہ رقوم جو لاہور کے ایک اخبار نے انہیں ان کی خدمات کے بدلے جولائی 2017ء سے اب تک ادا نہیں کیں۔ اخبار کے مالکان کا خیال ہے کہ انہیں شاید ان رقوم کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور پھر مشہور امریکی اخبارات کے وہ لمبے لمبے اور بہت پسند کیے جانے والے خصوصی مضامین جو ایک ایک رات میں اخبار کے قارئین کے لیے ایک ایک ہزار روپے کے عوض ترجمہ کیے جاتے تھے، وہ تو قارئین پڑھ کر متاثر ہو بھی چکے اور انہیں بھلا بھی چکے۔

احسن بٹ کا قصور ان کی علم اور کتاب دوستی ہے، ایک ایسے معاشرے میں جہاں اخبارات سرکاری اشتہارات کے لیے اپنی سرکولیشن زیادہ سے زیادہ دکھاتے ہیں اور پبلشنگ ہاؤسز زیادہ سے زیادہ آمدنی کے خواہش مند ہوتے ہیں، جہاں جون جولائی کی گرمی میں جوتے تو ایئر کنڈیشنڈ دکانوں میں فروخت کیے جاتے ہیں لیکن  کتابیں فٹ پاتھوں پر۔ آج کے احسن بٹ پاکستان میں علم، کتاب اور ادب دوستی سے متعلق اجتماعی سماجی رویوں کے نتیجے کی علامت بن چکے ہیں۔ شاید انہیں دودھ اور چینی کے بغیر چائے پینا بھی بند کر دینا چاہیے۔ کھانے کو ہوا کافی ہوتی ہے اور بیمار پڑنے کا بھی انہیں کوئی حق نہیں ہے۔

قصور احسن بٹ کا ہے یا پاکستان میں علم اور زبان و ادب کی ترقی کے بہت سے سرکاری اداروں کا، یا پھر ادب اور فن کے سرپرست حکمرانوں کا۔ دونوں میں سے ایک فریق تو یقیناﹰ غلط وقت پر غلط جگہ پر ہے اور سب کچھ غلط کرتا رہا ہے۔ شاید یہ احسن بٹ ہی ہوں گے۔

نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔