1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہادی گروپ خراسان کا اہم لیڈر ہلاک، امریکا

امتیاز احمد22 جولائی 2015

امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک طویل عرصے سے القاعدہ کے ساتھ وابستگی رکھنے والے اور ’خراسان گروپ‘ کے مرکزی کردار محسن الفضلی کو شام میں ایک فضائی کارروائی کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1G2ZZ
Muhsin al-Fadhli Khorasan Group
تصویر: US State Department

امریکا ماضی میں بھی محسن الفضلی کو متعدد مرتبہ نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا ہے اور ایک مرتبہ پہلے بھی بعض امریکی حکام نے کہا تھا کہ الفضلی ہلاک ہو چکا ہے۔ تاہم اس بار پینٹاگون نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی آٹھ جولائی کو شامی علاقے سرمدا کے قریب کی گئی، جہاں الفضلی ایک کار میں سفر کر رہا تھا۔

امریکی حکام نے بتایا ہے کہ الفضلی القاعدہ کا ایک سینیئر اور با اعتماد ساتھی تھا۔ پینٹاگون کے ترجمان نیوی کیپٹن جیف ڈیوس کے مطابق القاعدہ کے رہنما الفضلی پر اس قدر اعتماد کرتے تھے کہ اسے نائن الیون حملوں کا پہلے سے ہی علم تھا۔ جیف ڈیوس کے مطابق الفضلی کا شمار القاعدہ کے ان لوگوں میں ہوتا تھا، جنہیں القاعدہ کی طرف سے پیشگی نوٹیفیکشن موصول ہوتے تھے۔

امریکی محمکہٴ دفاع کے ترجمان کے مطابق الفضلی اکتوبر 2002ء میں کویت میں امریکی فوجیوں پر ہونے والے حملے اور فرانسیسی جہاز ایم وی لیمبورگ کو نشانہ بنانے کی کارروائی میں بھی ملوث تھا۔ ڈیوس نے مزید بتایا، ’’الفضلی القاعدہ کے تجربہ کار کارکنوں کا لیڈر تھا۔ یہ جنگجو بعض اوقات خود کو خراسان گروپ کے نام سے متعارف کرواتے ہیں اور ان کا بنیادی ہدف امریکا اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنانا ہے۔‘‘

لفظ خراسان پاکستان اور افغانستان کے ایک علاقے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان میں موجود رہنے والے القاعدہ کے درجنوں لیڈر اب شام منتقل ہو چکے ہیں، جہاں وہ القاعدہ سے منسلک گروپ النصرة فرنٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

محسن الفضلی کی پیدائش کویت میں ہوئی تھی۔ امریکا نے گزشتہ برس تیئیس ستمبر کو بھی اس رہنما کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد مختلف جہادیوں نے محسن الفضلی کی ہلاکت پر افسوس کے پیغامات پوسٹ کیے تھے۔ ایک امریکی اہلکار کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ اس وقت امریکی حکام کو الفضلی کی ہلاکت کی خبریں تو موصول ہوئی تھیں لیکن نہ تو پینٹاگون اور نہ ہی وائٹ ہاؤس ان خبروں کی تصدیق کر پایا تھا۔