1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جھانسی کی رانی سے پونم پنڈت تک

17 اپریل 2021

تاریخ میں پدرسری کی روایات اس قدر مستحکم ہیں کہ آج کے معاشرے میں کوئی مشکل سے ہی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ کبھی مادرسری معاشرہ بھی وجود رکھتا تھا۔ طاہرہ سید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3s9WV
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

تاریخ چونکہ پدرسری نظام کے تحت لکھی گئی اور ریاستوں کے سربراہ مرد ہی تھے لہٰذا ان کے کردار کے اوصاف بہادری شجاعت اور دلیری ہی بیان کیے گئے جبکہ عورت کو نازک کمزور ناتجربہ کار اور عقل سے بےبہرہ بتایا اور دکھایا گیا۔ ان پدرسری روایات کو خواتین کی اکثریت نے پوری وفاداری کے ساتھ نبھایا۔ حالات جتنے بھی نامساعد رہے ہوں، جتنا بھی ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پستی رہی ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں کوئی نا کوئی باہمت خاتون ایسی ضرور سامنے آئی جس نے زمانے سے لڑ کر معاشرتی ناانصافیوں کا نہ صرف ڈٹ کے مقابلہ کیا بلکہ خود کو بھی منوایا۔ اس سلسلے میں ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مردوں کی لکھی ہوئی تاریخ میں وہی خواتین جگہ بنا پائیں جنہوں نے اپنی نسوانیت ختم کرکے مردوں کے طورطریقے اختیار کیے اور ان کے جیسا لباس زیب تن کیا۔ رضیہ سلطانہ، جھانسی کی رانی، چاند بی بی اور پھولن دیوی جیسے بے شمار کردار تاریخ کے پردوں پر اپنا نقش چھوڑ گئے۔

آج کے دور میں اس پدرسری نظام کو چیلنج کرتی خواتین میں سے ایک انٹرنیشنل شوٹر پونم پنڈت ہیں جو مودی سرکار کو للکارتی نظر آرہی ہیں۔ بے باک، نڈر اور بلند حوصلہ پونم پنڈت خود اعتمادی اور اپنے فطری اور دیسی انداز میں میڈیا سے گفتگو کرتی ہیں۔ مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں ہر بات بےجگری سے کہہ جاتی ہیں۔ بظاہر ایک کم عمر اور ناتواں نظر آنے والی یہ لڑکی آہنی اعصاب کی مالک ہیں جو بھارتی کسانوں کے احتجاج میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں اور پچھلے کئی مہینوں سے یوپی دہلی سرحد پر خیمہ زن رہیں اور اپنے مطالبات سے ایک انچ ہٹتی دکھائی نہیں دیتیں۔ 2018ء میں نیپال میں ہونے والے ایک شوٹنگ مقابلے میں وہ گولڈ میڈل حاصل کرچکی ہیں۔ بھارت میں ہونے والے ٹریکٹر مارچ میں سر پہ دیسی انداز میں پگڑی باندھے وہ صحافیوں کے تابڑتوڑ سوالات کا انتہائی حاضرجوابی سے سامنا کرتی رہیں۔

ایک ایسے معاشرے میں جنم لینے والی لڑکی جہاں ذات پات کے نظام نے انسان سے انسان ہونے کا حق چھین لیا ہے، جہاں خواتین کو گھر میں موجود سامان سے بھی کم اہمیت دی جاتی ہے، وہیں پونم ان تمام معاشرتی اصولوں کے بنائے ہوئے جھوٹے بت توڑتی اپنی راہ ہموار کرتی جاتی ہیں۔

بحثیت مجموعی تاریخ ہمیں بہت سی ایسی خواتین کے بارے میں بتاتی ہے کہ جنہوں نے ایسے وقت میں اپنا لوہا منوایا جب کوئی ان کے لیے آواز اٹھانے والا نہ تھا۔ 1835ء میں پیدا ہونے والی لکشمی بائی المعروف جھانسی کی رانی نے معاشرے کی فرسودہ روایات کو روندتے ہوئے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ گھوڑ سواری، مارشل آرٹ، تلواربازی بھی سیکھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے 22 سالہ لکشمی نہ صرف خود ہتھیار اٹھا کر مقابلے کے لیے کھڑی ہو گئی بلکہ سامراجی طاقت کے سامنے پوری فوج کھڑی کر دی۔ جنگ کے آخری لمحات میں میدان سے بھاگنے کے بجائے انگریز فوج کے ساتھ بےجگری سے لڑتے ہوئے اپنی جان دے کر تاریخ رقم کر دی۔

اسی طرح ایک اور متنازعہ شخصیت پھولن دیوی نے بھی اپنا نام تاریخ میں لکھوایا۔ ڈاکو سے ایک سیاستدان تک کے کٹھن سفر کو اپنی ہمت اور حوصلے سے طے کیا۔ نچلی ذات کے ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والی پھولن دیوی سماجی روایات کے مطابق گیارہ سال کی عمر میں بیاہ دی گئیں اور جنسی اور جسمانی تشدد سہتی رہیں۔ ڈاکوؤں نے اغوا کیا اور کئی دن تک اپنی درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب پھولن دیوی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئیں۔ اور اپنے اوپر کیے گئے ظلم کا بدلہ لیا۔ جس طرح ایک ننھی مخلوق چیونٹی کے بارے میں سائنسی تحقیقات ہمیں بتاتی ہے کہ یہ مخلوق بھی باقاعدہ انسانوں کی طرح ایک منظم زندگی گزارتی ہے اور اپنے سے سو گناہ بڑی طاقت رکھنے والے دشمن کو نہ صرف یاد رکھتی ہے بلکہ انتقام بھی لیتی ہے۔ اسی طرح جب ہم گاؤں کی سیدھی سادھی معصوم سی پھولن دیوی کے انٹرویوز دیکھتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ معصوم سی خاتون ہتھیار اٹھا کر اتنے سارے قتل بھی کر سکتی ہے۔

ہائبرڈ وار فئیر کے اس دور میں جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ میڈیا کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔ پونم پنڈت آج کے دور میں اس ہتھیار کا بخوبی استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ ہندو گھرانے کی ایک سیدھی سادی گاؤں کی لڑکی جس نے ایک سادہ سے کچے گھر میں جنم لیا، اپنی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ گھر کی معاشی زمہ داریاں بھی نبھائیں۔ ایک پسماندہ گاؤں کی اس با صلاحیت لڑکی نے اپنے بل بوتے پر انٹرنیشنل شوٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ بھارت میں کسانوں کے احتجاج میں وہ لفظوں کی گولہ باری کرتی نظر آتی ہیں۔ غازی پور کی مظاہرہ گاہ میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی پونم کسی کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔ مودی سرکار نے احتجاج میں سے خواتین کو گھر جانے کے لیے کہا تو پونم کا اپنے مخصوص دیسی انداز میں جواب تھا کہ ''دیس کی ناری سب پہ بھاری اور اتنے جھوٹے جھوٹے لوگوں کو نبھا رہی‘‘۔ اسی طرح چند صحافیوں نے جب خواتین کے ٹریکٹر چلانے پر تنقید کی تو پونم نے ان کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''ٹریکٹر چلانے پر کچھ مقدمہ لکھا جائے گا میرے پہ، یہاں پر کچھ ایسا قانون ہے کہ اگر کوئی چھوری ٹریکٹر چلائے تو اسے پھانسی پر لٹکا دو یا اس کی کھال ہی کھچوا دو؟‘‘

کسان کو ان داتا بھی کہا جاتا ہے جو کہ پوری نسل انسانی کے لیے رزق کی فراہمی کا وسیلہ بنتا ہے لیکن جب اسی کسان کا حق غضب کیا جائے تو علامہ اقبال فرماتے ہیں؛


سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو


لیکن پونم کے خیالات سن کر لگتا ہے کہ وہ ساحر لدھیانوی کی سوچ کی حامی ہیں کہ جنہوں نے کہا تھا


تیری تخلیق نہیں تو اسے برباد نہ کر

جس سے دہقان کو روزی نہیں ملنے پاتی

میں نہ دوں گا تجھے وہ کھیت جلانے کا سبق

فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے

فصل کی خاک سے کیا مانگے گا جمہور کا حق


پونم بھی فصل کی تقسیم بدلنے کی جستجو میں ہیں اور اس جدوجہد میں وہ کس حد تک جاتی ہیں اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا پاتی ہیں یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن وہ خواتین کے لیے ہمت اور حوصلے کی مثال ضرور بن چکی ہیں۔