جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات نہایت مؤثر
23 مئی 2022انسان ہزاروں سالوں سے پودوں کی شفا بخش خصوصیات کی تلاش اور اس کو بروئے کار لاکر ادویات سازی کر رہے ہیں۔ گرچہ جڑی بوٹیوں کے علاج کو اکثر غیر سائنسی قرار دیا جاتا ہے، لیکن ایک تہائی سے زیادہ جدید ادویات براہ راست یا بالواسطہ قدرتی مصنوعات جیسے پودوں، مائیکرو اورگینیزم اور جانوروں سے حاصل کی جاتی ہیں۔
اب، امریکی ریاست کیلیفورنیا کے 'اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے محققین نے یہ پتا چلا یا ہے کہ 'گالبولی لیما بیلگراوینا درخت‘ کی چھال سے نکالا جانے والا کیمیکل نفسیاتی اثرات رکھتا ہے جو ڈپریشن اور اضطراب کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ درخت ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے اور استوائی علاقوں جیسے کہ پاپوا نیو گنی اور شمالی آسٹریلیا کے دور دراز بارانی جنگلات میں پایا جاتا ہے اور اسے مقامی لوگ طویل عرصے سے درد اور بخار کے علاج کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔
کیلیفورنیا کے 'اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ سے وابستہ کیمسٹری کے ایک پروفیسر اور ایک سینیئر مصنف ریان شینوی کے بقول،''اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ادویات نے مارکیٹ کو اپنے گھیرے میں نہیں لیا ہے۔ اب بھی بہت سی ایسی روایتی ادویات پائی جاتی ہیں جن پر تحقیق ہونا باقی ہے۔‘‘
پودوں میں کون سی دیگر طبی خصوصیات پائی جاتی ہیں؟
پودوں سے کشیدہ کردہ سب سے مشہور و معروف طبی مواد افیون ہے۔ اس کا استعمال بطور درد کُش چار ہزار سال سے بھی پہلے سے کیا جاتا رہا ہے۔ پودے کی اس خاص قسم یعنی افیون یا پوست سے حاصل کردہ طبی مواد مورفین یا کوڈین جیسی دوا تیار کی جاتی ہے جس کا انسانی مرکزی اعصابی نظام پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
پارکنسنسز جیسی بیماری کا علاج
مخمل پھلیاں (Mucuna pruriens) قدیم ہندوستانی ایورویدک اور چینی حکمت میں قریب تین ہزار سالوں سے استعمال کی جارہی ہیں۔ قدیم مخطوطوں سے پتا چلتا ہے کہ لرزے یا رعشہ یا پارکنسنز جیسی بیماری کا علاج قدیم زمانے میں ان مخملی پھلیوں سے کیا جاتا تھا۔
اب یعنی موجودہ دور میں تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ ان پھلیوں میں لیووڈوپا نامی ایک مرکب پایا جاتا ہے جنہیں آج کل پارکنسنز جیسی بیماری کے اعلاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
امراض قلب کا مؤثر علاج
ایک مخصوص جھاڑی میں گہرے سرخ رنگ کا کھلنے والا پھول جسے گل گنجشفہ یا شہفنی بھی کہا جاتا ہے دل کے عارضے کے علاج میں بہت فائدہ مند مانا جاتا ہے۔ اس کی طبی خصوصیات پہلی صدی میں یونانی معالج ڈیوسکوریڈس نے دریافت کی تھی۔ چینی حکمت میں اسے ٹان بین چاؤ نے ساتویں صدی میں طب کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔
کورونا وبا کا چینی جڑی بوٹیوں سے علاج
موجودہ ترقی یافتہ دور میں کلینیکل ٹرائلز یا تجربوں سے پتا چلا ہے کہ شہفنی بلڈ پریشر کو کم کرنے اور دل کی بیماری کے علاج کے لیے کتنا مفید ہے۔ شہفنی کی بیریوں میں ایسے مرکبات پائے جاتے ہیں جیسے بائیو فلاوونوئیڈز یعنی بعض ایسے مادے جو ترنجی پھلوں اور سیاہ کشمش جیسی چیزوں میں پائے جاتے ہیں، سے بھرپور ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اینٹی آکسیڈینٹ کا حامل پروانتھوسیانیڈنز پایا جاتا ہے۔
شہفنی کا عرق ابھی تک وسیع تر عوامی طبی استعمال کے لیے موزوں قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ امر یقینی ہے کہ شہفنی کے درخت کی ٹہنی یا شہفنی بیر کا ذائقہ تھوڑا سا چھوٹے سیب جیسا ہوتا ہے اور ان کے عرق دل یا خون کی بیماریوں کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔
پیسیفک یو ٹری بارک
پیسیفک یا بحرالکاہل کے مخصوص درخت کی چھال کینسر جیسی موذی بیماری کا مقابلہ کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یو کے درختوں کو یورپی افسانوی طب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ درخت کے زیادہ تر حصے بہت زہریلے ہیں، جس کی وجہ سے موت اور لافانییت دونوں ہی کا اس سے تعلق ہے۔ شیکسپیئر کے معروف پلے میکبیتھ کے ایک کردار 'تھرڈ وچ‘ کے ضمن میں اس کا ذکر ہے۔
لیکن یہ شمالی امریکہ میں پائے جانے والے یو درخت کی ایک قسم ہے۔ Taxus brevifolia سب سے زیادہ طبی خصوصیات کی حامل قسم مانی جاتی ہے۔ 1960 ء کی دہائی میں سائنسدانوں نے اس کی چھال میں ٹیکسلز نامی مرکبات کی موجودگی کا پتا لگایا ان میں سے ایک ٹیکسل جسے Paclitaxel کہتے ہیں، یہ کینسر کے خلاف بننے والی ایک دوا میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ کینسر کے خلیوں کو تقسیم ہونے سے روکتی ہے اور اس طرح اس مہلک بیماری کی وجہ بننے والے خلیوں کی نشو و نما کو روکا جا سکتا ہے۔
فرڈ شؤالر/ ک م/ ع ح