1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری ہتھیاروں کے خطرے میں کمی نہیں آئی

7 جون 2011

اسٹاک ہولم میں قائم ایک انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ SIPRI کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں پانچ ہزار سے زائد جوہری ہتھیار باقاعدہ نصب اور استعمال کے لیے تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/11Vtd
امریکہ اور روس نے گزشتہ برس اسٹارٹ معاہدے پر دستخط کیے تھےتصویر: AP

SIPRI نے مزید کہا ہے کہ جوہری طاقتیں ہتھیاروں کے ایک ایسے نئے نظام کی تشکیل میں سرمایہ کاری کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، جو مستقبل قریب میں تخفیف اسلحہ کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

SIPRI کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آٹھ جوہری طاقتوں کے پاس اس وقت مجموعی طور پر 20 ہزار پانچ سو وار ہیڈز موجود ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی حامل یہ ریاستیں برطانیہ، چین، فرانس، بھارت، اسرائیل، پاکستان، روس، اور امریکہ ہیں۔ رپورٹ سے مزید یہ انکشاف ہوا ہے کہ دنیا میں اس وقت پانچ ہزار ایسے جوہری ہتھیار موجود ہیں، جو کسی بھی وقت استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے دو ہزار ایٹمی ہتھیاروں کو ہائی الرٹ رکھا گیا ہے۔

سال رواں جنوری کے ماہ سے روس کے پاس نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد گیارہ ہزار ہو گئی ہے، جن میں سے 2,427 باقاعدہ نصب اور استعمال کے لیے تیار ہیں۔ امریکہ کے 8,500 ہتھیاروں میں سے 2,150 فوری استعمال کی پوزیشن میں ہیں۔

روس اور امریکہ کے مابین START یعنی اسٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ دونوں نے اس پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس کے تحت دونوں ملکوں میں سے ہر ایک کو 1,550 وار ہیڈز کی تنصیب کی اجازت ہوگی۔ تاہم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ SIPRI کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں تخفیف اسلحہ کے امکانات بہت کمزور نظر آ رہے ہیں کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے حامل تمام آٹھوں ممالک اپنے اپنے جوہری پروگراموں کو بہتر سے بہتر بنانے یا کم از کم اُس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔

SIPRI کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 1968ء کے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام سے متعلق معاہدے کے پانچ ممالک یعنی برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کو جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کی حیثیت سے قانونی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان جوہری طاقتوں نے یا تو جوہری ہتھیاروں کا ایک نیا نظام تیار کر لیا ہے یا کم از کم اس بارے میں اپنے ارادوں کا اظہار کر چکی ہیں۔ رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں جنوبی ایشیائی پڑوسی ممالک عسکری مقاصد کے لیے اپنی جوہری صلاحیت میں اضافے کی کوشش کر رہے ہیں۔

SIPRI کے ڈائریکٹر ڈینیل نورڈ نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ وہ واحد خطہ ہے، جہاں بھارت اور پاکستان کے مابین چلے آ رہے دیرینہ تنازعات اور کشیدگی کے سبب جوہری ہتھیاروں کے شعبے میں باقاعدہ مقابلہ بازی چل رہی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل، جس نے اب تک کھل کر خود کو ایک جوہری طاقت نہیں کہا ہے، تاہم تمام دنیا اس کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں جانتی ہے، غالباً اس تاک میں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام کیا شکل اختیار کرتا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا بھی غالباً کافی مقدار میں پلوٹونیم پیدا کر چکا ہے اور جس کی مدد سے وہ کم تعداد میں نیوکلیئر وار ہیڈز بنا سکتا ہے۔ تاہم اس بارے میں کوئی خبر عام نہیں ہے کہ شمالی کوریا کے پاس ایسے جوہری ہتھیار موجود ہیں، جو کار آمد بھی ہیں۔

مغربی دُنیا میں پاکستان، جو اپنے شمال مغربی علاقوں پر سے کنٹرول کھو چکا ہے، کے جوہری ہتھیاروں کے انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ جانے کے بارے میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں