1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوتوں کا ایسا پہاڑ جو ہزارہا مقتول بچوں کی واحد نشانی ہے

2 اکتوبر 2022

آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے نازی اذیتی کیمپ میں قتل کیے گئے آٹھ ہزار بچوں کے جوتے ان مقتولین کی یادگار کے طور پر رکھے گئے ہیں۔ عشروں پہلے ہولوکاسٹ کے دوران زندہ بچ جانے والے پنکسرکہتے ہیں، ’’شاید یہ میری بہنوں کے جوتے ہیں۔‘‘

https://p.dw.com/p/4HcYt
ہولو کاسٹ میں زندہ بچ جانے والے 92 سالہ ایری پنسکر 70 سے زائد مرتبہ آؤشوٹس واپس جا چکے ہیںتصویر: Paul James Pearson/DW

انسانی تاریخ کے بدترین المیوں میں سے ایک یعنی ہولوکاسٹ  میں زندہ بچ جانے والے چند افراد نے غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے اس منظم نسل کشی مہم کا شکار بننے والے ہزاروں کم سن بچوں کے زیر استعمال رہنے والے جوتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ صرف اسی ایک نازی اذیتی کیمپ میں ہلاک کیے گئے آٹھ ہزار بچوں کے یہ جوتے بدنام زمانہ آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے کیمپ میں ان ہلاک شدگان کی یادگار کے طور پر رکھے گئےہیں۔ ان ہزارہا جوتوں کی ایک پہاڑ جیسے ڈھیر کی شکل میں وہاں موجودگی اس کیمپ سے جڑی ہوئی ہولناک ترین یادوں میں سے ایک کا عملی ثبوت ہے۔

اس وقت 92 سالہ ایری پنسکر درجنوں بار اپنی  زندگی کی کہانی سنا چکے ہیں۔ لیکن جب وہ ان مقتولین کی طرف سے اپنے پیچھے چھوڑے گئے جوتوں کے بہت بڑے ڈھیر کو دیکھتےہیں، جنہوں نے نازیوں کے زیر قبضہ جنوبی پولینڈ میں آؤشوٹس برکیناؤ کے کیمپ میں داخل ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری قدم اٹھائے تھے، تو پنسکر کی آنکھیں ہر بار آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔

Deutschland | Gedenktstätte Konzentrationslager Auschwitz
نازیوں کے زیر قبضہ رہنے والاجنوبی پولینڈ میں آؤشوٹس برکیناؤ کیمپ تصویر: Teri Schultz/DW

پنسکر کے اپنے والدین بھی اسی کیمپ میں قتل کیے گئے ایک ملین سے زائد قیدیوں میں شامل تھے۔ ان لاکھوں مقتولین میں پنسکر کے اپنے چھ بہن بھائی اور تقریباﹰ دو لاکھ تیس ہزار بچے بھی شامل تھے۔ پنسکر کے خاندان کو، جس میں ان کے دو بڑے بھائی بھی شامل تھے، ٹرانسلوینیا میں ان کے گاؤں سے خام تیل لانے والی ایک ریل گاڑی میں بھر کے بہت سے دیگر قیدیوں کے ساتھ پانچ دن تک کھانے اور پانی کے بغیر سفر کروا کر آؤشوٹس کے نازی اذیتی کیمپ میں پہنچایا گیا تھا۔

ایک ہال نما کمرے میں ایک شیشے کے پیچھے پڑے نظر آنے والے جوتوں کے اس اونچے ڈھیر کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے پنسکر نے اپنی آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ مگر سوچتے ہوئے کہا، ''یہ انہی مقتولین کے جوتے ہیں۔ شاید یہ میری ماں اور میری بہنوں کے جوتے بھی ہیں۔‘‘

جدائی نے جان بچا لی

جب نازی محافظوں نے اس کیمپ میں نئے آنے والوں کو ایک دوسرے سے  الگ کیا اور کچھ کو 'غسل‘ کے لیے تیار ہونے کا کہا، تو اس دوران پنسکر اپنے والدین سے الگ ہو جانے کے باعث ان جیسے انجام سے بچ گئے۔ اس دن کی سہ پہر یاد کرتے ہوئے پنسکر کی آواز رندھ گئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پنسکر کا کہنا تھا کہ تب انہوں نے اس کیمپ میں اپنی آمد کے بعد وہاں طویل عرصے سے موجود ایک اور نوجوان سے پوچھا تھا کہ آیا ان کے اہل خانہ  'غسل‘ کے بعد باہر آئیں گے اور وہ دوبارہ انہیں مل سکیں گے، تو جواباﹰ اس نوجوان نے کہا تھا، ''معلوم نہیں۔ پھر اس نے قریبی چمنیوں سے اٹھتے دھوئیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: یہ ہے وہ جگہ، جہاں سے یہ لوگ باہر آتے ہیں۔‘‘

Gedenkstätte und Museum Auschwitz-Birkenau | Projekt Konservierung der Schuhe
آؤشوٹس میں نازی بربریت کا نشانہ بننےوالوں کے جوتے محفوط کرنے کے منصوبے میں شریک افرادتصویر: Paul James Pearson/DW

اس دن کے بعد پنسکر نے اپنے والدین یا اپنے خاندان کے چھوٹے ارکان کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت پنسکرکی عمر 13 برس تھی۔ شاید ان کی قسمت میں یہ لکھا تھا کہ وہ ان بچوں میں سے ایک کے طور پر زندہ رہیں گے، جنہوں نے آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے اذیتی کیمپ میں نازی مظالم کو 'ڈراؤنے خواب‘ کا سچ مچ سامنا کیا۔

غم سے بھری کہانیاں

پلاسٹک کے دستانے پہن کر  ایک چھوٹے سے بچے کا ایک عشروں پرانا جوتا بڑی نرمی سے  اپنے ہاتھوں میں پکڑے پنسکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کے مقتولین اور متاثرین کی ان آخری نشانیوں کو محفوظ رکھنا کتنا ضروری ہے۔ وہ اداسی سے کہتے ہیں، ''یہ سب کچھ ان ہزارہا بچوں کی یادگار ہے۔‘‘ ان بچوں کے جوتوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے منعقدہ تقریب  میں پنسکر اور ان کے ساتھ اسی کیمپ کے زندہ بچ جانے والے ایک اور سابقہ قیدی بوگڈان بارنیکووسکی کے ساتھ ساتھ آؤشوِٹس بِرکیناؤ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک تعلیمی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل مارچ آف دی لیونگ، آؤشوِٹس بِرکیناؤ  فاؤنڈیشن، آؤشوِٹس میموریل اور نیشلوس فاؤنڈیشن کے عہدیدار بھی موجود تھے۔ ان کا مقصد آؤشوٹس میں مارے گئے آٹھ ہزار بچوں کے جوتوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اس منصوبے کا نام 'سول ٹو سول‘ یعنی 'روح سے جوتے کے تلوے تک‘ ہے۔

Deutschland | Gedenktstätte Konzentrationslager Auschwitz
آؤشوٹس کیمپ میں مارے گئے آٹھ ہزار بچوں کے جوتوں کو محفوظ کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہےتصویر: Teri Schultz/DW

اس مقصد کے لیے آؤشوٹس میموریل میں ایک خصوصی کنزرویشن لیب پہلے ہی کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کو فنڈز دینے والے اداروں میں سے ایک فاؤنڈیشن کے سربراہ ایتان نیشلوس کہتے ہیں کہ انسانی زندگیوں کی یہ باقیات 'معلومات کا ناقابل یقین ذخیرہ‘ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''میں واقعی امید کرتا ہوں کہ ہم ان جوتوں کی حفاظت اور بحالی کے ذریعے ان کہانیوں کو منظر عام پر لانے کے لیے غیر معمولی کام کریں گے اور سب سے اہم بات، انہیں پوری دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے۔‘‘

نیشلوس کی دادی ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھیں اور انہیں اپنی دادی  کی یاد  کے طور پر ان جوتوں کا ایک ڈبہ وراثت میں ملا۔ اب وہ اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دوسرے خاندانوں کی بھی ان کی اپنی تاریخ کی زیادہ سے زیادہ دریافت میں مدد کریں۔

نیشلوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے ایک جوتا دیکھا، جس کے نیچے لفظ 'سنڈریلا‘ لکھا تھا۔ تو میں نے سوچا، اس جوتے کو پہننے والی سنڈریلا کون تھی یا ان کو پہننے والے شہزادے کون تھے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے بچوں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی طرف سے یہ میری نسل کا فرض ہے کہ ہم ان یادوں کی شمعیں ہمیشہ روشن رکھیں۔‘‘

Auschwitz-Birkenau
آؤشوِٹس بِرکیناؤ کیمپ میں نازیوں نے دس لاکھ سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتاراتصویر: Alex Pantcykov/Sputnik/dpa/picture alliance

ایری پنسکر کا کہنا ہے، ''اگر ہم نے اس کی نمائش نہ کی کہ آؤشوٹس میں کیا ہوا تھا، اگر ہم ان شواہد کو محفوظ نہیں رکھتے، تو ایسا دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ لیکن اس کیمپ کے عقوبت خانوں کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے پنسکر کو ڈر ہی رہتا ہے کہ یہاں انسانوں کی طرف سے دوسرے انسانوں سے ہولناک رویوں کی یادیں کسی رکاوٹ کا کام نہیں کر رہیں۔ پنسکر افسردگی سے کہتے ہیں، ''انسانی نفرت اب بھی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔‘‘

یوکرین پر روسی فوجی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پنسکر نے کہا، ''آپ کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ یوکرین میں پوٹن کیا کر رہے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ جب کوئی ڈکٹیٹر اقتدار میں ہو اور کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہو، تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ پنسکر اب تک  70 سے زائد مرتبہ آؤشوٹس واپس جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کووڈ انیس کی عالمی وبا نہ ہوتی، تو وہ اس تعداد سے بھی زیادہ مرتبہ وہاں جا چکے ہوتے۔ پنسکر کے مطابق وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ترک نہیں کریں گے کہ مستقبل کے عالمی رہنما درست فیصلے کریں۔

ٹیَری شُلٹس (ش ر / م م)