1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان پر میزائل حملے

24 جون 2009

جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملے کے نتیجے میں زخمی ہونےوالوں میں مزید بارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جس سے مرنے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/IaTM
مبینہ امریکی میزائل حملوں کا سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتاتصویر: AP

مکین اورلدھا میں بیت اللہ محسود کے ٹھکانوں پر کیے گئے ان حملوں میں طالبان کے کئی اہم کمانڈر بھی ہلاک ہوئے جن میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے کمانڈر سنگین اورخودکش بمباروں کو تربیت دیے والے قاری حسین کا نام بھی لیا جارہا ہے۔

وزیرستان کے طالبان نے اپنے پانچ ساتھیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے تاہم انہوں نے قاری حسین کی ہلاکت کی تردید کی ہے۔امریکہ نے بیت اللہ محسود پر لاکھوں ڈالرز کا انعام مقرر کیا ہےجبکہ پاکستان میں ان پر سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کی شریک چیر پرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی ہے۔

دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے مخالف گروپ کے سربراہ قاری زین الدین کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پورے اعزاز کے ساتھ سپردخاک کردیاگیا۔ ان کے جنازے میں بھاری تعداد میں دیگر کے علاوہ محسود قبیلے کے ایک اور کمانڈر حاجی ترکستان بٹینی نے بھی شرکت کی ہے۔ ان کی لعش ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایبٹ آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچائی گئی۔ بیت اللہ محسود گروپ نے قاری زین الدین کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کی مخالفت میں حکومت کاساتھ دینے والوں کا یہی انجام ہوگا۔

قاری زین الدین گروپ نے صلاح ومشورے کے بعد مصباح الدین کوگروپ کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اپنے مخالف کو قتل کرنے کے بعد بیت اللہ محسود گروپ کی علاقے میں ایک مرتبہ پھر گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے مخالفت میں آواز اٹھانے والے قاری زین الد ین سمیت کئی دیگر لوگوں کو بھی قتل کیاجا چکاہے۔ بیت اللہ محسود گروپ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ان کے جنگجو ساتھیوں کی تعداد پندرہ ہزار تک ہے جن میں افغان، ازبک ، عرب، چچن، تاجک اور دیگر غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ یہ وہ غیر ملکی ہیں جو ایک عرصے سے افغانستان میں حکومت اور مغربی افواج کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب ان لوگوں کا شمار القاعدہ کے اہم لیڈرز میں ہوتا ہے جو پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت افغانستان میں سرگرم عمل ہیں۔ بیت اللہ محسود گروپ کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ جو بھی قبائلی سردار یا حکومتی اہلکار علاقے میں ان کے خلاف سراٹھاتا ہے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے سینکڑوں قبائلی عمائدین اور سرداروں کو اسی طرح قتل کیاگیا۔ جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے گزشتہ روز کے امریکی جاسوس طیاروں میں ابتدائی طورپر چالیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں زخمیوں کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

قاری زین الدین کی ہلاکت کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں تجزیہ نگار اور سینئرصحافی بہروز خان کہتے ہیں: ’’بیت اللہ محسود کئی سالوں سے اس علاقے میں مقیم ہیں ان کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ان کے ساتھیوں میں نہ صرف مقامی طالبان ہیں بلکہ افغانستان میں مقیم غیر ملکی طالبان سب ان کے ساتھ ہیں۔ بیت اللہ محسود نے محسود قبائل کو بھی ساتھ کرلیا ہے جو وزیرستان میں افغانستان کے ساتھ سینکروں کلومیٹر طویل سرحد پر آباد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علاقے میں یہ گروپ انتہائی مضبوط ہے۔ اسے کمزور کرنے کے لئے حکومت کارروائی ہی سے ممکن ہوگی۔ اس کو کمزور کرنے کا دوسرا راستہ بیت اللہ محسود کے اپنے ہی گروپ کے اندر اختلافات کے نتیجے میں سامنے آنے والا گروہ ہوسکتا ہے۔ کوئی باہر کا گروپ اس کے لیے مسائل پیدا نہیں کرسکتا۔گزشتہ چند سالوں کے دوران انہوں نے خودکوانتہائی مضبوط کرلیا ہے اوراب یہ اطلاعات ہیں کہ ان کے گروپ میں پندرہ ہزار تک ملکی اورغیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔

جنوبی وزیرستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے سیکیورٹی فورسز نے بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن کاآغاز کر رکھا ہے۔ فوجی آپریشن کے علاوہ بیت اللہ محسود کے مخالف گروپوں سے تعلق رکھنے والے حاجی ترکستان بیٹنی اور عبداللہ محسود گروپ بھی ان کے خلاف سرگرم ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قاری زین الدین کے قتل کے بعد جنوبی وزیرستان میں حالات مزید کشیدہ ہونے کے خدشات ہیں۔

رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر