1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان میں مبینہ امریکی میزائل حملہ

7 جولائی 2009

امریکی جاسوس طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں طالبان کے تربیتی مرکز پر 2 میزائل داغے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Iil5
جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوجی آپریشن بھی چل رہا ہے اور مبینہ امریکی ڈرون حملے بھیتصویر: AP

اطلاعات کے مطابق زانگڑا نامی علاقے میں کئے گئے اس میزائل حملے کے نتیجے میں 16عسکریت پسند ہلاک جبکہ متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ حملے کے بعد مقامی طالبان نے علاقے کو گھیرے میں لےکر نعشوں اور زخمیوں کو نکالنا شروع کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق مرنےوالوں میں مقامی طالبان کے علاوہ چار غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستانی فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف جنوبی وزیرستان میں آپریشن شروع کررکھا ہے جبکہ امریکہ بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چھپے القاعدہ اور طالبان کے مطلوب افراد کے خلاف جاسوسی طیاروں کے ذریعے کارروائی کررہا ہے۔

قبائلی امورکے ماہر اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مومند ان حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں کہتے ہیں: ’’سارا علاقہ عدم استحکام کی طرف جارہا ہے۔ ایک پرتشدد سوسائٹی جنم لے رہی ہے۔ ایسا معاشرہ جنم لے رہا ہے جہاں نارمل زندگی کی طرف واپس آنا مشکل ہوگا اور اس کے لئے ایک طویل مدت درکار ہوگی۔ حملوں کے نتیجے میں چاہے کچھ بھی کہے وہاں حملوں کے نتیجے میں بے گناہ لوگ بھی مررہے ہیں اور جب بھی فضائی حملہ کیا جائے، چاہے پاکستان کی طرف سے ہوں یا امریکہ کی طرف سے ان حملوں کی وجہ سے نقل مکانی میں اضافہ ہورہا ہے اور نقل مکانی کرنے والوں کے لئے کوئی ریلیف کیمپ بھی نہیں ہے نہ انہیں امداد دی جاتی ہے تین سال قبل لڑائی کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ آج تک ریلیف نہیں دی گئی اور آج نقل مکانی کرنے والوں کے لئے بھی کوئی ریلیف نہیں یہ ہم ایک ایسا بیج بورہے ہیں جس سے نفرت ہی پیدا ہوگی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں سول اداروں کومنظم کیاجائے اور وہاں کے عوام کواعتماد میں لیاجائے کہ حکومت کامقصد علاقے کی تباہی نہیں ہے بلکہ حکومتی اقدامات علاقے میں ترقیاتی کام اور تعمیر کے لئے ہیں اور جو لوگ اس تعمیر میں رخنہ ڈال رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون چھوڑ دیں۔ اس وقت وہاں سول ادارے نہیں ہیں اداروں کے عوام کے ساتھ رابطے بھی نہیں ہیں اور اس وقت ایک تاثر یہ ہے کہ صرف ملٹری ایکشن ہی آخری آپشن ہو اوراس آپشن کے استعمال میں چاہیے فضائی کارروائی ہو یا ٹینک اور توپ کااستعمال ہو اس سے بے گناہ لوگوں کا ہی نقصان ہوا اس لیے حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے اوروہاں سول اداروں کومضبوط کرکے وہاں جرائم پیشہ افرادکے خلاف ٹارگٹڈحملے کرنے چاہیے۔

وفاقی حکومت کے زیرانتظام قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جاری شورش کی وجہ سے ہزاروں خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود اوران کے ساتھیوں کے خلاف حالیہ آپریشن راہ نجات کی وجہ سے مزید قبائل نقل مکانی کررہے ہیں، تاہم ان لوگوں کے لئے حکومتی سطح پر نہ کوئی ریلیف کیمپ بنایاگیا ہے اورنہ ہی ان کی مدد کے لئے پالیسی سامنے آئی۔ نقل مکانی کرنے والے کیمپ نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ سرحد اور پنجاب کے مختلف شہروں میں پناہ لے رہے ہیں۔ ان متاثرین کی آڑ میں شدت پسندی میں ملوث لوگ بھی بندوبستی علاقوں میں پہنچ کریہاں کارروائیاں کررہے ہیں جس سے صوبہ سرحد کاسترفیصد علاقہ بدامنی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔

رپورٹ : فرید اللہ خان

ادارت : عاطف توقیر