1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

12 جنوری 2009

جرمن زبان کے اخبارات نے اس بار پاکستان اور بھارت کے علاوہ سری لنکا کے حالات کو بھی اپنے تبصروں کا موضوع بنایا۔

https://p.dw.com/p/GVMV
تصویر: AP

بھارت نے ممبئی حملوں میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں ثبوت پاکستان کو مہیا کر دئیے ہیں۔ اس بارے میں جرمن اخبار Berliner Zeitung لکھتا ہے:’’دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات اتار چڑھاؤ سے عبارت ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو ثبوت مہیا کر دئیے ہیں۔ اب پاکستان کی نئی اور کمزور جمہوری حکومت کومحتاط طریقے سے قدم اٹھانا ہو گا تا کہ طاقتور فوج ناراض نہ ہو جائے۔ جنرل اشفاق کیانی اپنے پیش رو مشرف کے برعکس ایک ایسے شخص ہیں جو پسپائی اختیار کرنے کے حق میں نہیں۔ فوجی جرنیل رفتہ رفتہ عوام میں اپنی ساکھ بحال کر رہے ہیں، جسے مشرف دور میں سخت نقصان پہنچا تھا۔ فوجی قیادت سیاستدانوں کی ہر چال پر نظر رکھے ہوئے ہے اسے علم ہے کہ فوج کے بغیر زرداری حکومت خطرات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘

برلن سے شائع ہونے والا جرمن اخبار Tagezeitung لکھتا ہے:’’بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے پاکستان کی نو منتخب جمہوری حکومت کے خلاف الزامات غلط جگہ پر تیر برسانے کے مترادف ہیں۔ صدر زرداری نے اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے مرنے کے بعد اقتدارسنبھالا انہیں ایک سال قبل قتل کر دیا گیا تھا ۔ پاکستان میں پہلے کی طرح اب بھی ملکی سلامتی کے امور کے حوالے سے فوج کا ایک اپنا کردار ہے۔ وہ اس وقت عسکریت پسندوں کے خلاف فعال ہے اور ان کا زور توڑنا چاہتی ہے اس سے قبل کہ یہ لوگ ممبئی حملوں جیسی کوئی کاروائی کر سکیں۔‘‘

Zeitungen in Frankreich nach Präsidentschaftswahlen
تصویر: AP

Tagezeitung مزید لکھتا ہے کہ بھارت اپنے جارحانہ الزامات کے تحت غالباً اس کوشش میں ہے کہ امریکہ کے ذریعے پاکستان پر مزید دباؤ ڈال سکے۔ فوجی دھمکیوں کی بجائے نئی دہلی اب سفارتی دباؤ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

سری لنکا کی جانب سے باغیوں کے خلا ف جارحانہ حملوں کو بین الاقوامی برادری کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے اخبار Neue Züricher Zeitung لکھتا ہے:’’بین الاقوامی برادری جو گذشتہ کئی برسوں سے سری لنکا کی حکومت اورلبریشن ٹائیگرز آف تامل الام کو مذاکراتی میز پر جمع کرتی رہی ہے، لگتا ہے اب مایوس ہو چکی ہے۔ کولمبو میں سفارت کاروں کی وہ آوازیں ماند پڑتی جا رہی ہیں جن کے تحت کہا جاتا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے مسلے کا حل تلاش کیا جائے۔ یوں نظر آتا ہے جیسے سفارت کاروں کو احساس ہو گیا ہے کہ سری لنکا کے صدر Raja Pakse کبھی بھی حقیقی مذاکرات کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کے ارد گرد سخت مؤقف رکھنے والے لوگوں نے انہیں غالباً یہ احساس دلا دیا ہے کہ یہ صرف دہشت گردی کا مسلئہ ہے جسے طاقت کے زور پر حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘