1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

30 جنوری 2011

گزشتہ ہفتے جرمن اخبارات کے اہم ترین موضوعات تھے، انڈونیشیا کے صدر یودھو یونو کا بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پرنئی دہلی کا دورہ، بھارت میں کرپشن کی داستانیں اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کا قتل۔

https://p.dw.com/p/107Hw
تصویر: AP

انڈونیشی صدر یودھو یونو بانگ بانگ نے گزشتہ ہفتے بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر نئی دہلی میں منعقد ہونے والی تقاریب میں بحثیت مہمان خصوصی حصہ لیا۔ اخبار فرنکفٹر الگمائنے کے مطابق یودھویونو کا یہ دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایشیاء کے دو بڑے ممالک انڈونیشیا اور بھارت کے مابین دوستی اور یکجہتی کے نئے امکانات ابھر رہے ہیں۔ یہ اقتصادی اور تجارتی معاہدوں کا معاملہ ہے تاہم سیاسی سطح پر بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے ’ آبادی کے اعتبار سے ایشیاء کے دو سب سے بڑے جمہوری ممالک میں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادیاں پائی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا میں 200 ملین اور بھارت میں 160 ملین مسلمان آباد ہیں۔ تاہم یہ دونوں کثیرالمذاہب معاشرے ہیں۔ دونوں ریاستوں کو ماضی میں دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں کا سامنا رہا ہے۔ گزشتہ منگل کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور انڈونیشی صدر یودھو یونو نے انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے، جس کے تحت دونوں ملکوں کے سلامتی کے ادارے آئندہ سے مضبوط تر اشتراک عمل سے کام کریں گے۔ اخبار فرنکفٹر الگمائنے کے مطابق نئی دہلی اور جکارتا ایشیائی خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے تسلط کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘

کرپشن یا بدعنوانی کا موضوع جرمن دارالحکومت سے شائع ہونے والے روزنامے برلینر ٹاگس سائیٹُنگ کے ایک آرٹیکل کا مرکزی موضوع بنا۔ جس کے مطابق کرپشن بھارت کے سیاسی نظام میں ایک سنگین بحران کا سبب بن سکتا ہے اور یہ بھارت کی طویل المیعاد اقتصادی ترقی کو کسی بھی موڑ پر اچانک بریک لگنے کا باعث بنے گا۔ اس طرح بھارت کا دنیا کی ایک بڑی اقتصادی قوت بننے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے اور بدعنوانی کے واقعات اس ملک کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ برلینر ٹاگس سائیٹُنگ میں لکھا گیا ہے ’ بھارتی سیاست دان اکثر اپنے پروجیکٹس کی تکمیل میں ہونے والی تاخیر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرتے اور جمہوری رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے پر اس لیے کام نہ ہو سکا کیونکہ کسان اپنی زمینوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے اور بھارت میں کوئی بھی ان کسانوں پر اس بارے میں زبردستی نہیں کر سکتا۔ سماجی اور ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں بھارت میں بڑی آسانی سے دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے۔ حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی ترقیاتی پروجیکٹ پر آنے والے سرکاری اخراجات کی مد اتنی زیادہ بتائی جاتی ہے جو پہلے کسی نے سنی بھی نہیں ہوتی اور آخر کار پتہ یہ لگتا ہے کہ سیاستدانوں اور آجرین کی طرف سے جو ترقیاتی یا تعمیراتی کام مکمل کیا گیا ہے اُس کا معیار بتاتا ہے کہ ان کاموں پر درحقیقت بتائی گئی رقم سے کہیں کم خرچ ہوئی ہے‘۔

برلینر ٹاگس سائیٹُنگ مزید لکھتا ہے ’جموری نظام کی موجودگی کے باوجود بھارت میں ایک مضبوط اور قوت سے بھرپور اپوزیشن کی کمی پائی جاتی ہے۔ انتخابات کے سوا حکومت کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والے اسکینڈلز کے پیچھے زیادہ تر بڑے بڑے تاجروں کے نام چھپے ہوتے ہیں جو Big Buisness میں ملوث ہوتے ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنا لیبر یونین کے بس کی بات نہیں۔ اس صورت حال میں بھارتی عوام کو غیر ملکی اداروں سے تعلیم یافتہ ایسے نوجوان سیاستدانوں سے امیدیں وابستہ ہیں جو سیاست کے ساتھ ساتھ قانوں کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ مثلاً راہول گاندھی اور ان جیسے دیگر نوجوان سیاستدانوں سے۔ تاہم پرانے سیاسی اکابرین پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے اپنی اپنی گدیوں پر براجمان نظر آ رہے ہیں‘۔

اخبار نوئے زئیوریشر نے گزشتہ ہفتے ایک بار پھر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کو اپنے ایک تبصرے کا موضوع بنایا۔ تبصرہ نگار ’اوُرس شُیوٹلی تحریر کرتے ہیں’ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کی بُزدلانہ کارروائی کا خیر مقدم پاکستان کے تمام اسلامی حلقوں نے کیا۔ محض گنے چُنے افراد نے بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلمان تاثیر کے بہیمانہ قتل کی کُھل کر مذمت کی اور ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں رواداری اور رجعت پسندانہ اقدار کے فروغ پر زور دیا، جن رجحانات اور خیالات کے چیمپئن کبھی بانیِ پاکستان محمد علی جناح مانے جاتے تھے۔ پاکستان کی صورتحال محض اُس کے ہمسائے ملک بھارت ہی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہے، جس کے ساتھ پاکستان نے کئی جنگیں لڑی ہیں، بلکہ مغربی دنیا میں بھی پاکستان میں آئے دن ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی خوفناک خبریں ہر کسی کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ جب 170 ملین کی آبادی والا یہ ملک بحران، شورش زدگی اور گوناگوں مسائل کے سبب مسلسل پستی کی طرف گامزن ہوگا اور اس کی باگ ڈور مسلم انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں آ جائے گی تو یہ ملک بلا شبہ تمام مہذب دنیا کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنے گا۔

تحریر : انا لہمن/ کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد