1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشا میں نصف سے زیادہ لڑکیوں کی شادی 18 سال سےکم عمر میں

کشور مصطفیٰ12 ستمبر 2014

جنوبی ایشیا کی لڑکیوں کی نصف تعداد کی شادی 18سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں اس رجحان کو لڑکیوں کے ساتھ نمایاں غیر مساوی سلوک قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DBOH
تصویر: AP

عالمی ادارے کی بہبود اطفال کی ایجنسی یونیسیف کی طرف سے جمعرات کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں اس اکیسویں صدی میں بھی ہر سال قریب ایک ملین نو زائیدہ بچے صحت کے ناقص نظام کے سبب دنیا میں آتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کی یونیسیف کی ریجنل ڈائریکٹر کارین ہُلسہوف نے اس بارے میں اپنے ایک بیان میں کہا، " ماضی کی طرح اب بھی جنوبی ایشیا حاملہ خواتین اور بچوں کو جنم دینے کے عمل کے تناظر میں دنیا کے خطرناک ترین خطوں میں سے ایک ہے اور ماؤں کی اموات کی تعداد کے اعتبار سے جنوبی ایشیا دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے" ۔

Indien Hunger Armut
لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی جڑیں بہت گہری ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

کارین ہُلسہوف نے مزید کہا کہ اب بھی جنوبی ایشیائی ممالک میں ایک بڑی تعداد میں کم سن بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور پیدائش سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دی جانے والی بچیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں یونیسیف کی ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا تھا، "بچے کی جنس کا انتخاب اب بھی جنوبی ایشیا کے چند علاقوں میں مروجہ ہے۔ اکثر والدین بچے کی پیدائش سے پہلے اُس کی جنس کا پتا لگا لیتے ہیں اور لڑکی ہونے کی صورت میں والدین اسقاط حمل کا فیصلہ کرتے ہیں اور بچی کو دنیا میں آنے ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ رواج خاص طور سے ذات پات کے حامل بھارتی سماج میں اب بھی پایا جاتا ہے" ۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، " جنسی امتیاز کی بنا پر بچے کی پیدائش کا فیصلہ کرنے کے رواج کے پیچھے لڑکوں کے حق اور لڑکیوں کے خلاف صنفی تعصب کا ہاتھ ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس میں سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور اقتصادی عوامل کار فرما ہیں۔ یہ رواج لڑکیوں کی اسمگلنگ اور جنسی مقاصد کے لیے اُن کے ناجائز استعمال کا سبب بن سکتا ہے" ۔

Protest Neu Delhi Indien Vergewaltigung
بھارت میں لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے بہت سی خواتین سرگرم ہیںتصویر: picture alliance/abaca

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی شادی 15 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے اور اس اعتبار سے اس خطے کا شمار دنیا کے ان حصوں میں ہوتا ہے جہاں کم سنی یا بچپن کی شادی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک میں بنگلہ دیش اس ضمن میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس ملک میں ہر تین میں سے دو لڑکیوں کی سن بلوغت میں پہنچنے سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ اس طرح ان لڑکیوں کو جنسی زیادتیوں اور گھریلو تشدد کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بچوں میں غذائیت کی شدید کمی پائی جاتی ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے غیر کامل نمو کا شکار ہیں یا ان کی نشوونما ناقص ہے۔ غیر کامل نمو کے شکار بچوں کو نہ صرف صحت کے دیرینہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ایسے کم از کم ایک ملین بچوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ تاہم یہ شرح 1990 ء میں 60 فیصد تھی جو اب کم ہو کر 40 فیصد رہ گئی ہے۔

Indien Kinderarmut Armut Ernährung
جنوبی ایشیا کے بچوں میں غذائیت کی شدید کمی پائی جاتی ہےتصویر: Dibyangshu Sarkar/AFP/Getty Images

کنونشن آن دا ہیومن رائٹس آف دا چائلڈ کی پچسویں سالگرہ کے موقع پر سامنے آنے والی اس رپورٹ میں تاہم کیا گیا ہے کہ گزشتہ صدی کی آخری چوتھائی میں براعظم جنوبی ایشیا کے تمام آٹھ ممالک میں بچوں کی زندگی کی مجموعی صورتحال میں بہتری آئی ہے تاہم صنفی امتیاز کے رجحان کے جاری رہنے کے سبب اس خطے میں بچوں اور نوجوانوں سے متعلق ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں حکومتوں کی طرف سے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ جیسے شعبوں میں ہنوز بہت کم سرمیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ ، افغانستان، پاکستان، سری لنکا اور نیپال شامل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں