1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی تعلیمی منصوبے پر جرمن صوبے میں والدین کا احتجاج

عاطف بلوچ1 نومبر 2015

جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کی کوشش ہے کہ اسکولوں میں ہم جنس پرستی سمیت تمام جنسی رحجانات کے بارے میں تعلیم دی جائے تاکہ بچے متنوع جنسی رویوں کو قبول کرنے کے اہل ہوں تاہم والدین اس مجوزہ حکومتی منصوبے پر سراپا احتجاج ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GxsG
Symbolbild Sex education Aufklärung Sexualerziehung
اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ تصور کیا جاتا ہےتصویر: Colourbox

جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے اسکولوں میں ’جنسی تنوع‘ کے حوالے سے تعلیم دیے جانے کے مجوزہ منصوبے پر اس وفاقی ریاست میں احتجاج کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہزاروں والدین نے سڑکوں پر نکل کر صوبائی حکومت کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ ان کے بچوں کو وقت سے پہلے ہی جنسی اعمال کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ کم عمری میں ہی جنسی رابطوں یا کیفیات کا تجربہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ گزشتہ ہفتے صوبائی دارالحکومت اشٹٹ گارٹ میں پانچ ہزار شہری اس حکومتی منصوبے کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوئے۔

اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ تصور کیا جاتا ہے، بالخصوص والدین کے لیے یہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔ جنوب مغربی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ نے جب اسکولوں میں بچوں کو ہم جنس پرستی کے رحجانات سے متعلق تعلیم دینے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس بارے میں والدین کے تحفظات فوراﹰ سامنے آ گئے۔ یہ صوبہ آئندہ تعلیمی سال سے اپنے سیکس ایجوکیشن کے نئے نصاب میں ہم جنسی پرستی کے علاوہ دیگر جنسی رویوں کے بارے میں بھی آگاہی دینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد بچوں میں مختلف جنسی رحجانات رکھنے والے افراد کے لیے برداشت کا مادہ پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔

فابیان میولر نے حالیہ دنوں میں فرائی برگ میں اپنی ٹیچنگ ٹریننگ مکمل کی۔ تاہم اس دوران انہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ نہیں بتایا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔ میولر کا خیال ہے کہ اس کورس میں پاس ہونے کے لیے انہیں اپنے شاگروں کی اچھی رائے درکار تھی۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آپ مکمل طور پر ان (شاگردوں) کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس مخصوص وقت پر یہ ایک مسئلہ ہو سکتا تھا۔‘‘ تیس سالہ میولر اب اپنے نئے اسکول میں اپنی جسنی ترجیحات کے بارے میں بتانے سے گریز نہیں کرتے۔

اشٹیفان رِشٹر بھی ہم جنس پرست ہیں، جو باڈن ورٹمبرگ کے ایک قصبے میں اسکول ٹیچر ہیں۔ یہ ان کا حقیقی نام نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی پی اے سے گفتگو میں اپنی شناخت کو مخفی رکھنے کی درخواست کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شاگروں کو کبھی نہیں بتایا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں بلکہ وہ اس موضوع کو ہمیشہ ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب کبھی بھی وہ اپنے شاگردوں کو ہم جنس پرست افراد کے لیے برداشت کا سبق دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو طلبا و طالبات پوچھ لیتے ہیں، ’’مسٹر رِشٹر، کیا آپ ہم جنس پرست ہیں؟‘‘

Rumänien Sexualkunde Unterricht
باڈن ورٹمبرگ نے جب اسکولوں میں بچوں کو ہم جنس پرستی کے رحجانات سے متعلق تعلیم دینے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس بارے میں والدین کے تحفظات فوراﹰ سامنے آ گئےتصویر: CPE

رِشٹر کو خوف ہے کہ جب قدامت پسند والدین کو ان کے جنسی رویوں کے بارے میں علم ہو گا تو ان کے لیے مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بچوں سے سنا ہے، ’’ہم جنس پرستی قدرتی عمل نہیں ہے، خدا اس سے منع کرتا ہے۔‘‘ اسی لیے وہ اپنے جنسی رویوں کو چھپانے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے پریشان بھی ہیں۔

باڈن ورٹمبرگ میں طلبہ کے والدین کی کونسل کے چیئرمین کارسٹن ریس کے بقول رِشٹر کے کیس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکولوں کو ہم جنس پرستی کے حوالے سے ایک مضبوط موقف اختیار کرنا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کا خاتمہ ہونا چاہیے، ’’یقینی طور پر یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ ایک ٹیچر والدین کے ردعمل سے خوفزدہ ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید