1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جموں و کشمیر قبل از انٹرنیٹ حجری دور میں واپس

24 دسمبر 2019

کشمیر کے باشندے اگست کے مہینے سے انٹر نیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ وہ بلوں کی ادائیگی کے لیے گھنٹوں قطار میں لگے رہتے ہیں یا پھر سرکاری کھوکوں پر دستیاب انٹرنیٹ کی سہولت کا استعمال کرنے کے لیے گھنٹوں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VIDM
BG Jahresrückblick 2019
تصویر: Reuters/D. Ismail

بھارت کے دوسرے علاقے بھی مظاہروں کی زد میں ہیں۔ وہاں کے لوگ بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ سماجی کارکنوں اور ایکٹوسٹوں کے مطابق بھارتی حکام ایک طرف تو دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں دوسری جانب نئی دہلی حکومت نے جموں و کشمیر کے خطے کی سات دہائی پرانی خود مختاری کو ختم کر کے اس علاقے کے باشندوں کو انٹرنیٹ تک رسائی سے بھی محروم کر دیا ہے۔ شہریت کے نئے قانون کے خلاف بھارت بھر میں گذشتہ دو ہفتوں کے پر تشدد مظاہروں میں ملک کے مختلف علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ کنکشن اور کچھ میں تو لینڈ لائن کے کنکشن بھی منقطع کر دیے گئے۔ 

کشمیر میں اگست کے مہینے میں نافذ کیا گیا سکیورٹی لاک ڈاؤن نرم کر دیا گیا ہے اور اب کچھ موبائل فونز دوبارہ سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن سینکڑوں سیاسی اور دیگر قائدین زیر حراست ہیں اور بیشتر شہری ہنوز انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔

سری نگر کے مرکزی شہر میں محمد عرفان سرکاری ٹیلی مواصلات کی ایک فرم کے زیر انتظام ایک بڑے ہال نما کمرے میں ایک لمبی قطار میں انتظار کر رہے تھے۔

عرفان نے اے ایف پی کو بتایا،’’پہلے میں بل کی ادائیگی کام کے دوران یا چلتے پھرتے اپنے موبائل فون کے ذریعے کر دیا کرتا تھا لیکن اب مجھے ہر مرتبہ ایک گھنٹہ اس قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

کاروباری اداروں اور لوگوں کی طرف سے شکایات کا ایک سیلاب آچکا ہے کہ وہ لوگ اب آن لائن کیے جانے والے ہزاروں کاموں کو کرنے سے قاصر تھے۔ حکام نے حال ہی میں انٹرنیٹ کے کھوکوں یا دکانوں کا اہتمام کیا ہے۔ خطے کے سات لاکھ باشندوں کے لیے کوئی درجن بھر پبلک انٹرنیٹ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ دس سے پندرہ منٹ کمپیوٹر کا استعمال کر پاتے ہیں۔

Indien Protest von Journalisten in Kaschmir
جموں و کشمیر میں مواصلاتی لاک ڈاؤن کے حوالے سے جاری ایک مظاہرے کے شرکاءتصویر: AFP/T. Mustafa

نئی دہلی کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دہشت گرد انٹرنیٹ کا استعمال نہ کر پائیں۔  کئی دہائیوں سے کشمیر میں ایک علحیدگی پسند شورش کا سلسلہ جاری ہے اس لیے انٹرنیٹ کے استعمال پر کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ لوگوں کو اپنی شناخت دکھانا پڑے گی اور لوگوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ وہ کس لیے آن لائن جانا چاہتے ہیں اور کس مقصد سے کس ویب سائٹ کا استعمال کر رہے ہیں ان کو سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔   ٹرمینلز پر لوگوں کی موبائل اسکرینز پر دیکھنے کے لیے اہلکار کھڑے رہتے ہیں اور وہ وقت ختم ہو جانے کے بعد لوگوں کو آگے بڑھنے کے لیے کہتے ہیں۔ صارفین کا شبہ ہے کہ سافٹ ویئر کے ذریعے بھی ان کے ہر کلک کو ٹریک کیا جاتا ہے۔

 

ایک طالب علم  مبشر جو کشمیر کے برفانی علاقے میں ساٹھ میل کا سفر طے کر کے ایک انٹرنیٹ کی دکان پر پہنچا ۔ اس کا کہنا تھا،’’ میں گھر پر بیٹھ کر ہی اپنے امتحانات کی تیاری کرتا لیکن  اسکی بجائے میں یہاں اپنا رجسٹریشن کارڈ وصول کرنے کے لیے انتظار کر رہا ہوں جو صرف آن لائن دستیاب ہے۔‘‘

 

موبائل فون صرف کالز کے لیے اکتوبر میں بحال کیے گیے تھے حتٰی کہ واٹس ایپ غیر فعال ہونے کی وجہ سے کچھ اکاؤنٹس بند ہو گئے ہیں۔  حتٰی کہ سرکاری ملازمین کو اپنے دفتر میں دفتری کام کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت لینا پڑتی ہے۔  جبکہ فکسڈ لائن کیبل انٹرنیٹ کی سہولت کچھ پر تعیش ہوٹلز اور آئی ٹی کے دفاتر میں بحال کر دی گئی ہے۔ لیکن وہان پر بھی یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ  صرف دفتری عملہ اس کا استعمال کرے اور سیاسی سرگرمی یا سوشل میڈیا یا وائی فائی نیٹ ورکس بنانے کے لیے اس کا استعمال نہ ہو۔ یو ایس بی پورٹس کو بھی غیر فعال کرنا ہو گا۔ 

 ایک سافٹ ویئر فرم کے مالک نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ  

’’ہمیں سکیورٹی فورسز کو کسی بھی وقت جب وہ چاہیں ہمارے انفرا اسٹرکچرکا معائنہ کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کرنا پڑا۔‘‘   

Indien Polizei Polizist mit Waffe
بھارت کے زیر انتظام کشمیرمیں ابھی تک سخت سکیورٹی سخت رکھی گئی ہےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/F. Khan

حکام نےحال ہی میں کچھ ٹیکسٹ میسیج سروسز کو بحال کیا ہے تا کہ صارفین پاس کوڈ حاصل کر سکیں جو آن لائن خریداری اور بنکنگ کے لیے جنوبی ایشیا میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ کی رسائی کے بنا اس کا بھی زیادہ استعمال نہیں ہے اور باقی ہندوستان جس آن لائن دنیا سے مستفیض ہو رہا ہے وہاں لوگ اور ادارے اس کے استعمال سے قاصر ہیں۔

اشفاق میر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کی آن لائن کنسلٹنسی فرم نے انٹرنیٹ کے منقطع ہونے کی وجہ سے مہینوں سے ایک پیسہ نہیں کمایا۔'' ہم اس وقت مکمل طور پر مایوس کن صورتحال سے دوچار ہین۔‘‘

کشمیر کے ایک سرکردہ مقامی تاجروں کے گروپ کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست کو انٹرنیٹ بند ہونے کے بعد سے معیشت کو ہونے والے نقصانات ایک اعشاریہ سات بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

کشمیر چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے اعداد و شمار سے ظاہر  ہوتا ہے کہ قریب ایک لاکھ ملازمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس میں سے نصف سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں۔

آن لائن رسائی کی عدم دستیابی نے صحت کے شعبے کو بھی اس طرح متاثر کیا ہے کہ مریضوں اور معالج کے بیچ آن لائن مشاورت نہیں ہو پاتی۔

بھارتی کریک ڈاؤن سے کشمیر میں مذہبی آزادی بھی متاثر