1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمال خاشقجی کا معاملہ اہم ہے، امریکی صدر

13 اکتوبر 2018

امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیے گئے ہیں تو ریاض حکومت کو ’سخت سزا‘ دی جائے گی۔ سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی دو اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/36ULs
USA Trump setzt Kavanaugh durch
تصویر: Reuters/Y. Gripas

خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک انٹرویو کے حوالے سے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیا گیا ہے تو سعودی عرب کو سخت سزا دی جائے گی۔

ٹرمپ نے نشریاتی ادارے سی بی ایس سے گفتگو میں کہا کہ واشنگٹن حکومت اس معمے کا حل تلاش کر لے گی اور اگر اس میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو ذمہ داران کو سزا بھی دی جائے گی۔ اس سعودی صحافی کے لاپتہ ہونے کے بعد ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ انہیں دراصل ہلاک کیا جا چکا ہے۔

سعودی حکومت اور پرنس محمد بن سلمان کے کڑے ناقد جمال خاشقجی امریکا میں مقیم تھے اور وہ اپنی شادی کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں دو اکتوبر کو استنبول میں واقع ترک قونصل خانے جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ ان کی منگیتر کے مطابق خاشقجی کے قونصل خانے کے اندر جانے کے بعد وہ گیارہ گھنٹے تک باہر کھڑی انتظار کرتی رہی لیکن خاشقجی باہر نہ نکلے۔

سی بی ایس کے پروگرام ’سکسٹی منٹ‘ میں امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ کیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کا پروانہ جاری کیا تھا تو ٹرمپ نے کہا، ’’ابھی یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہم حقائق تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ امریکی صدر کا مکمل انٹرویو اتوار کے دن نشر کیا جائے گا۔ تاہم اس کے اقتباسات ہفتے کے دن جاری کر دیے گئے۔

امریکی صدر کے مطابق خاشقجی کا کیس اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ وہ ایک رپورٹر تھے۔ تاہم ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اس معاملے کی وجہ سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تناظر میں کہا کہ وہ لوگوں کی ملازمتوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف ترک ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ خاشقجی کو استبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خاشقجی کا معاملہ ترکی اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔

ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے