1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جماعت الدعوة کی ’ملی مسلم لیگ‘ سے  لبرل حلقوں کو پریشانی

عبدالستار، اسلام آباد
7 اگست 2017

پاکستان میں جماعت الدعوة سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج الیکشن کمیشن میں اپنے آپ کو باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹر کرا لیا ہے اور نئی سیاسی جماعت کا نام ملی مسلم لیگ رکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2hpOo
Milli Muslim League Pakistan
جماعت الدعوة کے ایک مرکزی رہنما کا کہنا ہے کہ حافظ سعید اس سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گےتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

اس جماعت کے مرکزی ترجمان تابش قیوم نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جی، میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ہم نے ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنالی ہے، جو ایک آزاد سیاسی جماعت ہوگی اور ہم نے جو عوام کی خدمت کی ہے، اس کے بل بوتے پر ہم سیاست کریں گے ۔ ہمارا نظریہ وہی ہے، جو نظریہ پاکستان ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں تابش قیوم  نے کہا، ’’حافظ سعید صاحب نظر بند ہیں۔ وہ اس جماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم نئے چہرے لے کر آرہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی افراد نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن لبرل حلقے اس فیصلے پر اظہار تشویش کر رہے ہیں۔ معروف تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ مثبت فیصلہ ہے کیونکہ سیاسی جماعت بننے کے بعد وہ عوام کی نظروں میں ہوں گے اور اُن کے اثاثے اور ساری سرگرمیاں قانون نافذ کرنے والوں کی نگاہوں کے سامنے ہوں گی۔ وہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے تابع بھی ہوں گے۔ ہاں اس فیصلے پر اعتراض ہوگا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اس خطے میں وہ بھارتی پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں وہ اسرائیلی پالیسی کا حامی ہے۔ تو اگر امریکا حافظ سعید کو دہشت گرد سمجھتا ہے تو اس بنیاد پر حافظ سعید کو یہاں سزا تو نہیں دی جا سکتی۔ اُس نے پاکستان میں تو کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔‘‘

Hafiz Mohammed Saeed
تصویر: AP

لیکن جہادی و فرقہ وارنہ تنظیموں کے ناقدین اس فیصلے کو انتہائی تباہ کن سمجھتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے اس سیاسی جماعت کی تشکیل پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ایک انتہائی منفی فیصلہ ہے، جس شخص کو دنیا اشتہاری سمجھتی ہے ، آپ اس کو سیاست میں لاکر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کا یہ الزام صحیح ہے کہ ہم اچھے اور برے انتہا پسند وں کی تعریفوں پر عمل پیرا ہیں۔ ایک طرف ہم داعش اور طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں تو دوسری جانب ہم ان ہی جیسی تنظیموں کو سیاست میں لار ہے ہیں۔ ‘‘

ایک سوال کے جواب میں اسد بٹ نے کہا ، ’’درحقیقت یہ لوگ قومی دھارے کی سیاست میں پہلے ہی سے موجود تھے لیکن انہوں نے غلاف دوسرا چڑھایا ہوا تھا۔ اب وہ غلاف اتار کر رسمی طور پر سیاست میں آرہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ جماعت الدعوة کئی برسوں سے تھر میں ایجنسیوں کی چھتری تلے کام کر رہی ہے اور اب ایجنسیاں ہی ان کو سیاست میں لا رہی ہیں تاکہ سیاست دانوں کوڈرایا اور دھمکایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ان کے ذریعے ہندوؤں، احمدیوں ، عیسائیوں اور شیعہ حضرات کو بھی خوفزدہ کیا جائے گا۔ دنیا ہم پر ہنسے گی کہ ایک طرف ہم قومی سطح کے رہنماؤں کو سیاسی منظرِ سے ہٹا رہے ہیں اور دوسری جانب حافظ سعید جیسے لوگوں کو سیاسی رہنما بنا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ان کی رجسٹریشن منسوخ کردینی چاہیے۔‘‘

Pakistan Demonstration in Lahore 22. Dez 2013
تصویر: picture-alliance/AP Photo

کچھ تجزیہ کار اس فیصلے کو مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے ملا کر دیکھ رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار احسن رضا، جن کی مذہبی ، جہادی اور فرقہ وارنہ تنظیموں پر گہری نظر ہے، نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ سیاسی جماعت اہلحدیث فرقے کی ہوگی، جس کا سیاسی چہرہ سینیٹر ساجد میر ہیں لیکن کیونکہ ساجد میر اس فرقے کے لئے زیادہ سیاسی جگہ حاصل نہیں کر سکے تو جماعت الدعوة اپنی سعودی فنڈنگ اور فلاحی کاموں کی بنیاد پر اس فرقے کے لئے سیاسی جگہ بنانے کی کوشش کرےگی۔ جس پر سعودی عرب یقیناً خوش ہوگا لیکن ایران اور خطے کے دوسرے ممالک اس کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’حافظ سعید جے یو ڈی کا جہادی چہرہ ہیں۔ میرے خیال میں وہ قیادت کے لئے کسی اور کو لے کر آئیں گے اور اگر مستقبل میں مشرقِ وسطیٰ میں کوئی گڑ بڑ ہوئی یا ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی بڑھی تو یہ یہاں سعودی مفادات کے حوالے سے پریشر گروپ کے طور پر کام کرے گی ۔ تو یہ کہا جا سکتا پہلے ریاض کے یہاں جہادی پراکسی تھے لیکن اب سیاسی پراکسی بھی ہوں گے۔‘‘

جماعت الدعوة کے ایک مرکزی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میری خیال میں حافظ سعید صاحب اس سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے ، جس کی آج رجسٹریشن بھی ہو گئی ہے۔ تاہم اس جماعت کا فکرو فلسفہ وہی ہوگا، جو جماعت الدعوة کا ہے۔