1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمنی کے لیے شرم کا مقام‘

6 فروری 2020

جرمن صوبے تھورنگیا میں وزیر اعلیٰ کے حالیہ انتخاب میں دائیں بازو کے ووٹوں کے فیصلہ کن ثابت ہونے پر ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/3XLmI
Ines Pohl Kommentarbild App
تصویر: DW/P. Böll

 

 

جرمن صوبے تھورنگیا میں وزیر اعلیٰ کے حالیہ انتخاب میں دائیں بازو کے ووٹوں کا فیصلہ کن ثابت ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف موجود رکاوٹی فصیلوں میں دراڑیں کس قدر گہری ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل نے اپنے تبصرے میں اسے ’جرمنی کے لیے شرم کا مقام‘ قرار دیا ہے۔ 

 اب سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل، 29 جنوری، 2020ء کو، وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں ہولوکاسٹ کے متاثرین کی یاد میں تقریب کا انعقاد ہوا تھا۔ اس موقع پر 75 سال پہلے آؤشوٹس کے حراستی کیمپ کی آزادی کے دن کو یاد کیا گیا۔ اسرائیلی صدر رووین ریولین نے برلن میں ایک تقریر کرتے ہوئے جرمنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی بھی فراموش نہ کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ یہود مخالف جذبات، نسل پرستی اور غیر ملکیوں اور دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے خلاف نفرت کے سد باب کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ اسرائیلی صدر ریولین کے مطابق ، جرمنوں اور ان کی سیاسی جماعتوں پر لبرل، جمہوری اقدار کے بارے میں خصوصی ذمہ داری عائد ہے۔ جرمنوں کو تاریخی طور پر شعوری انداز میں کام کرنا چاہیے۔ ’’جرمنی کو ناکام نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ یہ ہیں اسرائیلی صدر کے الفاظ۔

اور اب عین ایک ہفتے بعد یہ ہونا: دائیں بازو کے قدامت پسند اے ایف ڈی ووٹوں کی مدد سے، تھیورنگیا ریاست میں ایک لبرل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یہ ایک ایسا انتخاب ہے جس سے جرمنی لرز اٹھا۔ ایک ایسا انتخاب جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور ایف ڈی پی کے ریاستی سیاستدان اپنی تاریخی ذمہ داری کو نہیں سمجھ سکے۔ ایک ایسا انتخاب جو جمہوری سیاسی جماعتوں کے لیے کڑا امتحان ہے۔ اس کے نتیجے میں وفاقی جرمن پارلمیان میں نئے انتخابات بھی ہوسکتے ہیں۔

 کیا طاقت کی تحریص شدید ہے؟

آنے والے ہفتوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ چوٹی کے جرمن سیاستدانوں، جو کبھی بھی اے ایف ڈی کی حمایت سے اکثریت حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے، واقعی اپنی بات پر برقرار رہتے ہیں؟ یا آخر میں طاقت کی لالچ ان پر بھی حاوی ہو جائے گی۔

سی ڈی یو کی وفاقی چیئرمین آنے گریٹ کرامپ کارن باؤر نے اپنی ریاستی ایسوسی ایشن تھیورنگیا سے اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا واضح اعلان کیا تھا۔ لیکن اب ان کی واضح کمزوری کا کیا مطلب ہے؟ اگر سی ڈی یو کے مینڈیٹ ہولڈرز، تھیورنگیا میں اے ایف ڈی کے سربراہ برنڈ ہیک کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے لگیں تو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کیا کریں گی؟

اے ایف ڈی کے سربراہ برنڈ ہیک، جنہوں نے جرمنی کو اس لیے پاگل قرار دیا تھا کہ اس کے دارالحکومت برلن میں یہودیوں کے قتل عام کے تاریخی واقعے کے حوالے سے''شرم ساری یادگار‘‘کھڑی کی  گئی اور اس صورتحال میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کیا کرے گی،جو سی ڈی یو کے ساتھ  موجودہ حکمران اتحاد کا حصہ ہے؟

تاریخ فراموش جرمن

یہ یادگار دن جرمنی کو جڑوں سے لرزا دینے کا سبب ہونا چاہیے اور جمہوری قوتوں کو اب یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ کتنے مضبوط ہیں، وہ تھیورنگیا جیسے انوکھے واقعے کو معمول نہ بننے دینے سے روکنے کے لیے کہاں تک جا سکتے ہیں؟  کیا وہ اس عمل میں خطرہ تک مول لینے کے لیے تیار ہیں؟ ابھی چند روز قبل ہی وفاقی صدر فرانک والٹر اشٹائن مائرنے یاد واشم یادگار پر حاضری دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا ''نیشنل سوشلزم آسمان سے نہیں ٹپکا تھا۔‘‘

جرمنی میں فروری کے شروع میں اس دن کا یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ دریں اثناء جرمن کتنے تاریخ فراموش ہو چُکے ہیں اور بقول اسرائیلی صدر رووین ریولین،''جرمنی کو ناکام نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ہم سب کو یہ تشویش لاحق ہے اور کوئی بھی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاریخ کبھی بھی خود کو نہیں دہرا سکتی۔

اینس پوہل/ ک م / ع ا

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں