1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ہزاروں شامی مہاجرین کی آمد متوقع

عاطف توقیر12 ستمبر 2015

جنوبی جرمن شہر میونخ میں ہفتے کے روز قریب 16 سو شامی مہاجرین پہنچ گئے ہیں، جب کہ رواں ویک اینڈ پر ان مہاجرین کی متوقع تعداد 40 ہزار تک بتائی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GVYv
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ہفتے کے روز جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر 16 سو مہاجرین پہنچے۔ جب کہ ہفتے اور اتوار کے روز مجموعی طور پر قریب چالیس ہزار شامی مہاجرین جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ ان مہاجرین کو دیگر شہروں میں پہنچانے اور آباد کرنے کے اقدامات میں تیزی آ چکی ہے۔

جمعے کے روز میونخ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد اٹھاون سو تھی، جب کہ شمالی آسٹرین شہر زالسبرگ سے ایک خصوصی ٹرین مزید پانچ سو مہاجرین کو لے کر برلن پہنچی۔

میونخ شہر کے میئر ڈیٹر رائٹر نے جرمنی کے دیگر علاقوں سے فوری مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میونخ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد چالیس ہزار ہو چکی ہے۔

Deutschland Merkel gibt Statement nach dem Besuch der Ferdinand-Freiligrath-Schule in Berlin
میرکل نے خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ جرمن زبان سیکھیں اور معاشرتی دھارے میں شامل ہوںتصویر: Reuters/F. Bensch

ادھر جرمن دارالحکومت برلن میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ساڑھے پانچ ہزار شامی مہاجرین پہچنے ہیں، جب کے ان کے قیام کے لیے فوج کی مدد سے اولمپک پارک میں قیام گاہیں بنائی گئی ہیں۔ حکام کے مطابق متعدد مہاجرین جرمنی سے سویڈن بھی منتقل ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سینکڑوں افراد نے جمعرات کے روز بحیرہء بالٹک عبور کر کے جرمنی سے سویڈن میں پناہ لی۔

اپنے ہفتہ وار بیان میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین میں شامل خواتین سے کہا تھا کہ وہ جرمن زبان سیکھیں۔ میرکل کے مطابق، ’جرمن سیکھیں اور صرف اور صرف اسی برادری میں نہ رہ جائیں، جس میں آپ اس وقت رہ رہی ہیں، بالکل باہر نکلیں اور نئے راستے تلاش کریں۔‘

واضح رہے کہ جرمنی پہنچنے والے ہزاروں مہاجرین کے حوالے سے یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ جرمن زبان نہ بول پانے کی وجہ سے ایسے افراد کو معاشرے میں مکمل انضمام کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

میرکل نے اپنے بیان میں خواتین پر زور دیا کہ وہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیں اور دیگر خواتین کو بھی ان میں شامل کریں۔