1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سرفہرست

شمشیر حیدر
31 مئی 2018

ایک تازہ تحقیق کے مطابق سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے ہر چوتھا فرد اب برسر روزگار ہے۔ ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سرفہرست ہیں۔

https://p.dw.com/p/2yj7Y
Flüchtlinge Arbeitsagentur
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gerten

جرمنی میں روزگار کی منڈی اور ملازمتوں سے متعلق تحقیق کے ادارے (آئی اے بی) کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے ایک چوتھائی افراد جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔

وفاقی دفتر روزگار کے اس ذیلی ادارے نے اپنی تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ مہاجرین اسی رفتار سے روزگار کی ملکی منڈی تک رسائی حاصل کرتے رہے تو اگلے پانچ برسوں میں نصف ملین سے زائد تارکین وطن برسر روزگار ہوں گے۔

ایک مقامی جرمن اخبار ’رائنشے پوسٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے آئی اے بی میں مہاجرین اور روزگار سے متعلق تحقیق کے سربراہ ہیربرٹ برؤکر نے بتایا کہ رواں برس کے اختتام تک اوسطا ساڑھے آٹھ ہزار تا دس ہزار تارکین وطن ہر مہینے ملازمتیں حاصل کر لیں گے۔

پاکستانی تارکین وطن سرفہرست

تحقیقی رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن میں روزگار کے حصول کی شرح بھی مختلف رہی۔ روزگار کے حصول کی سب سے زیادہ شرح پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن میں دیکھی گئی۔ سن 2015 کے بعد سے پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے پاکستانی تارکین وطن میں سے چالیس فیصد افراد رواں برس مارچ کے اختتام تک جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے تھے۔

پاکستانی تارکین وطن کے علاوہ ایران اور نائجیریا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین بھی جرمنی میں ملازمتوں کے حصول کی شرح میں نمایاں رہے۔

افغان، عراقی اور شامی مہاجرین کی جانب سے ملازمتوں کی درخواستوں کی تعداد تو زیادہ رہی لیکن کامیابی کی شرح ایرانی اور پاکستانی تارکین وطن کی نسبت نمایاں طور پر کم رہی۔

یورپ آنے کے قانونی طریقے

صفائی ستھرائی، سکیورٹی اور مال برداری

آئی اے بی کے مطابق تارکین وطن نے زیادہ تر ملازمتیں ایسے شعبوں میں حاصل کیں جہاں جرمن زبان سے واقفیت کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔ گیارہ فیصد تارکین وطن کو سروسز سے متعلق کمپنیوں میں صفائی ستھرائی، سکیورٹی، مال برداری اور اشیا کی نقل و حرکت جیسے کام ملے۔ ہیربرٹ برؤکر کا کہنا تھا کہ اس امر کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت اس قسم کے کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔

تاہم جرمنی کے صنعتی شعبے میں ملازمتیں حاصل کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد نہایت کم رہی۔ برؤکر کے مطابق اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ زیادہ تر پناہ گزین جرمن زبان بھی نہیں جانتے اور نہ ہی وہ ہنرمند ہیں۔

حکومتی سماجی مراعات کے حصول میں بھی اضافہ

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے سماجی امداد حاصل کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ہیربرٹ برؤکر نے بتایا کہ جرمنی میں تسلیم شدہ حیثیت کے حامل مہاجرین کو جرمن زبان اور سماجی انضمام کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں، جن کی تکمیل کے بعد وہ فوری طور پر روزگار حاصل نہیں کر پاتے۔ اسی وجہ سے انہیں حکومتی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

روزگار کی منڈی اور ملازمتوں سے متعلق تحقیق کے اس جرمن ادارے کا کہنا ہے کہ سماجی مراعات حاصل کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس اب تک بارہ فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔

نئے تارکین وطن کی تعداد مسلسل کم

سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہوا تھا اور اس برس آٹھ لاکھ 90 ہزار تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے تھے۔ اس سے اگلے برس سن 2016 میں یہ تعداد کم ہو کر دو لاکھ اسی ہزار ہو گئی تھی جب کہ گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 87 ہزار مہاجرین سیاسی پناہ کے حصول کے لیے جرمنی پہنچے تھے۔ رواں برس کے دوران اب تک جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد گزشتہ برسوں کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید