1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مسلمانوں، مساجد پر سال میں قریب ایک ہزار حملے

3 مارچ 2018

اسلام جرمنی کا حصہ بن چکا ہے یا اس ملک میں اسلام دشمنی بڑھتی جا رہی ہے؟ گزشتہ برس اس یورپی ملک میں مسلمان مردوں، خواتین اور مساجد پر قریب ایک ہزار حملے کیے گئے۔ ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2tdZN
Moschee-Neubau in Dormagen mit Hakenkreuzen beschmiert
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Hammer

جرمن حکومت کی طرف سے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں ملوث تقریباﹰ سبھی ملزمان کا تعلق دائیں بازو کے انتہاپسندوں سے تھا۔ ان ’حملوں‘ میں مسلمانوں کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط، اسکارف پہننے والی مسلم خواتین یا پھر عوامی مقامات پر مسلمان مردوں کے خلاف کسے جانے والے نفرت انگیز جملے بھی شامل ہیں۔ گزشہ برس کیے گئے ان حملوں کے نتیجے میں کم از کم تینتیس افراد زخمی بھی ہوئے۔

اس کے علاوہ ساٹھ فیصد واقعات میں مساجد یا پھر دیگر اسلامی اداروں کی عمارات پر نازی سوچ کے مظہر نشانات بنائے گئے، گالیاں لکھی گئیں اور کئی مرتبہ تو ایسا خنزیر کے خون سے کیا گیا۔ جرمن حکومت کی طرف سے یہ اعداد و شمار بائیں بازو کی جماعت ’دی لنکے‘  کی طرف سے پارلیمان میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پیش کیے گئے۔

Deutschland Pegida gegen Moscheen Plakat in Dresden
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael

مسجد پر بم حملے سے مثال قائم کرنا چاہتا تھا، ملزم کا اعتراف

جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کے اعدا و شمار جمع کرنے کا سلسلہ گزشتہ برس شروع کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے ان کا ماضی کے کسی سال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

’نفرت انگیز‘ بیان دینے پر جرمن رکن پارلیمان کے خلاف مقدمہ

دوسری جانب جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اس کونسل کے سربراہ ایمن مزیک کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں حقیقت کے صرف چند ہی پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے، ’’حملوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ادارے، پولیس اور پراسیکیوٹرز کچھ واقعات کے حوالے سے غیر حساس ہیں اور ایسے واقعات درج ہی نہیں کیے جاتے۔‘‘

جرمن مسلمانوں پر پُرتشدد حملوں میں اضافہ

ایک جرمن اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے بہت سے متاثرہ مسلمانوں کی شکایات درج ہی نہیں کی جاتیں اور بہت سے خود پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔

تاہم سال دو ہزار سترہ کی آخری سہ ماہی میں اس طرح کے حملوں میں کمی واقع ہوئی۔ اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں صرف 167 ایسے واقعات رونما ہوئے اور پانچ واقعات میں مساجد اور دیگر مذہبی مراکز اور اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ تیسری سہ ماہی میں ایسے واقعات کی تعداد 288 رہی تھی۔

’دی لِنکے‘ نامی سیاسی جماعت سے وابستہ جرمنی کے داخلی سیاسی امور کی ماہر خاتون سیاستدان اولا جیلپکے کا کہنا تھا، ’’اسلام دشمن اب گلیوں سے نکل کر پارلیمان تک پہنچ چکے ہیں۔  یہ پارلیمانی اسٹیج کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کی زندگی کے خلاف سماجی ماحول کو زہریلا بنا رہے ہیں۔‘‘