1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مساجد کے آئمہ کی تقرری کا معاملہ: باہر سے نہ لائیں

19 جون 2019

جرمن حکومت ایک طویل عرصے سے مساجد کے آئمہ پر غیر ملکی چھاپ اور اثرات کم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ایک تازہ جائزے کے مطابق اگر تمام فریق اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر رضامند ہو جائیں، تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3KgTK
Köln Moschee Imame
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg

جرمنی میں شائع ہونے والے ایک نئے جائزے میں مساجد کے آئمہ اور دیگر مذہبی رہنماؤں کو تعلیم دینےکے حوالے سے درپیش مشکلات کے حل سے متعلق تجاویز دی گئی ہیں۔ ان تجاویز کے مطابق اس مقصد کے لیے ایسے سیمینارز کا اہتمام کیا جانا چاہیے، جو جرمنی میں اسلامی امور کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو اماموں کے طور پر تربیت دینے میں مددگار ثابت ہوں۔

Türkischer Imam predigt ein einer Moschee in Köln
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Berg

حالیہ برسوں کے دوران جرمن وزارت تعلیم و تحقیق نے ملک بھر میں قائم اسلام کی مذہبی تعلیم کے سات اداروں پر چوالیس ملین یورو کی سرمایہ کاری کی۔ تاہم عملی تربیت کی کمی کی وجہ سے وہاں سے فارغ التحصیل طلبہ آئمہ کے طور پر فرائض انجام نہیں دے پاتے۔ یہ عملی تربیت ان اداروں کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی طالب علم کسی مسجد کا امام بننا چاہے تو اسے اضافی تربیتی مراحل سے گزرنا پڑے گا۔

جرمنی میں اسلام کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس کے تناظر میں جرمن وزارت داخلہ نے مذہبی تنظیموں کے نمائندوں، سرکاری اہلکاروں اور ماہرین کے ساتھ دو دنوں کی ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ وزارت داخلہ کی ایک ترجمان نے بتایا کہ اس ورکشاپ کا مقصد جرمنی میں آئمہ کی عملی تربیت کے راستے تلاش کرنا تھا۔

اوسنابروک یونیورسٹی میں سماجیات کے شعبے کے پروفیسر رؤف چیلان، جنہوں نے 'جرمنی میں آئمہ کی تعلیم‘ نامی رپورٹ لکھی ہے، نے بتایا کہ اس سلسلے میں جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں ایک تجرباتی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ ان کے بقول اس منصوبے کے لیے اس وفاقی صوبے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ریاستی حکام، مقامی مذہبی برادریاں اور اوسنابروک میں قائم  اسلام کی مذہبی تعلیمی ادارہ کئی برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سہولت صرف اوسنابروک یا لوئر سیکسنی کے طلبہ کو حاصل ہے بلکہ ان امکانات تک ہر وہ شخص رسائی حاصل کر سکتا ہے، جو جرمنی میں امام بننا چاہتا ہے۔‘‘

جرمنی میں اسلام کی مختصر تاریخ