1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزاروں کی ملک بدری

عاطف بلوچ، روئٹرز
22 فروری 2017

جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ نے سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزاروں کو ان کے آبائی وطن بھیجے کی سرگرمیوں میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Y3sb
Deutschland Rückführung von Flüchtlingen
تصویر: Getty Images/T. Lohnes

ایک ایسے موقع پر جب افغان مہاجرین کی ملک بدری کی وجہ سے جرمنی کے مختلف صوبوں اور وفاق کے درمیان اختلافِ دیکھا جا رہا ہے، جرمن کابینہ نے فیصلہ کیا ہےکہ سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزاروں کی ملک بدرکی کارروائیوں کی تیزی لائے جائے۔

ان نئے اقدامات میں مہاجرت سے متعلق حکومتی اہلکاروں کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ چند مخصوص معاملات میں سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار کی شناخت کے لیے ان کے موبائل فون کو اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اس طرح ایسے درخواست گزار جن کی شناخت یا آبائی وطن سے متعلق معلومات دستیاب نہیں، پہچانا جا سکے گا۔

بدھ کی شام جنوبی جرمن شہر میونخ سے پچاس افغان شہریوں کو وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس کے آخر سے اب تک یہ تیسرا موقع ہے، جب کہ سیاسی پناہ کے ناکام افغان باشندوں کو اس طرح گروپ کی صورت میں وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ افغان باشندوں کی ملک بدری پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔

سن 2015 سے 2016ء تک جرمنی میں قریب ایک ملین مہاجرین داخل ہوئے تھے، تاہم گزشتہ برس سیاسی پناہ کے قریب 80 ہزار ناکام درخواست گزاروں کو ان کے آبائی ممالک بھیجا جا چکا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس عمل میں مزید تیزی پیدا کی جائے۔

جرمنی میں شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے افراد کو تو پناہ دینے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم حکومتی موقف ہے کہ اقتصادی بنیادوں پر ہجرت اختیار کرنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان کے متعدد علاقے محفوظ ہیں اور واپس بھیجے جانے والے افغان باشندے کابل اور ملک کے متعدد دیگر علاقوں میں محفوظ زندگی گزار سکتے ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو مہاجرین دوست پالیسیوں کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا ہے۔ چانسلر رواں برس ستمبر میں عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر چانسلر کی امیدوار بھی ہیں، تاہم عوامی سطح پر ان کی مقبولیت میں ماضی کے مقابلے میں خاصی کمی دیکھی گئی ہے۔ دوسری جانب مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی نے ماضی قریب میں جرمنی میں مختلف ریاستی انتخابات میں ماضی کے مقابلے میں خاصی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں یہ جماعت جرمنی کی تیسری سب سے بڑی قوت بن سکتی ہے۔