1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن سیاسی بحران ٹل گیا، ایس پی ڈی نے ’ہاں‘ کر دی

شمشیر حیدر AFP/dpa/AP
21 جنوری 2018

جرمنی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایس پی ڈی کی کانگریس کے مندوبین نے چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کی حمایت کر دی۔ مخلوط حکومت میں شمولیت کی حمایت میں 362 اور مخالفت میں 279 ووٹ ڈالے گئے۔

https://p.dw.com/p/2rGDD
Außerordentlicher SPD-Parteitag
a Abstimmung
تصویر: Reuters/W. Rattay

جرمن شہر بون میں اتوار کے دن بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریس کے مندوبین کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں رائے شماری کے ذریعے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے باقاعدہ مذاکرات شروع کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جانا تھا۔

مزید پڑھیے: جرمنی میں حکومت سازی کی کوشش: ’سب کچھ یا کچھ بھی نہیں‘

مزید پڑھیے: جرمنی: مخلوط حکومت بنانے کا آخری موقع، میرکل ’پر امید‘

ایس پی ڈی کے رہنما مارٹن شُلس ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے مخلوط حکومت میں شمولیت کی حمایت کر رہے تھے تاہم اس پارٹی کے زیادہ تر نوجوان ارکان اسے اپنی جماعت کے لیے ’سیاسی خودکشی‘ قرار دے رہے تھے۔

سارا دن جاری رہنے والے اجلاس کے بعد مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے رائے شماری شروع ہوئی، جس پر ملک بھر کے عوام اور سیاسی جماعتیں نظریں لگائے بیٹھے تھے۔ اس اجلاس میں ایس پی ڈی کے مندوبین میں سے 362 ارکان نے مخلوط حکومت سازی کے لیے باقاعدہ مذاکرات کی حمایت جب کہ 279 ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔

ایس پی ڈی کی کانگریس سے منظوری کے بعد جرمنی میں آئندہ چار برس کے لیے ایک ’وسیع تر اتحاد‘ پر مشتمل ایک مستحکم حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد اور ایس پی ڈی مخلوط حکومت سازی کے لیے ابتدائی مذاکرات کے دوران ایک معاہدے پر متفق ہو چکے ہیں۔ انہی طے شدہ نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب آئندہ باقاعدہ مذاکرات کا دور رواں ہفتے کے دوران ہی شروع ہو جائے گا۔

ایس پی ڈی گزشتہ انتخابات کے بعد سے اب تک برسراقتدار مخلوط حکومت میں بھی چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ وفاقی جرمن حکومت کا حصہ ہے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اس جرمن سیاسی جماعت کے ارکان انتخابات کے مایوس کن نتائج کا الزام مخلوط حکومت کا حصہ بننے پر بھی عائد کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے ایس پی ڈی کے رہنما مارٹن شُلس نے انتخابات کے فوراﹰ بعد اعلان کر دیا تھا کہ ایس پی ڈی دوبارہ مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔

تاہم سی ڈی یو اور ایس پی ڈی جرمنی کی دو چھوٹی سیاسی جماعتوں ایف ڈی پی اور گرین پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے میں ناکام رہی تھیں جس کے بعد مارٹن شُلس نے نئے انتخابات سے بچنے اور سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے مخلوط حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔

آج کے اجلاس سے قبل مارٹن شُلس نے پارٹی ارکان کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ آج اتوار کی رائے شماری 'نہ صرف جرمنی اور یورپ کے سیاسی مستقبل کے لیے بہت اہم ہے بلکہ ایس پی ڈی کے اپنے سیاسی مستقبل کا انحصار بھی مخلوط حکومت میں شمولیت پر ہے‘۔ جرمن جریدے 'ڈئر اشپیگل‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں شُلس کا کہنا تھا کہ اگر 'نہ‘ کے حق میں ووٹ ڈالا گیا تو فوری طور پر نئے انتخابات ہو سکتے ہیں اور خدشہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام ایس پی ڈی کو ملک میں سیاسی استحکام نہ لانے پر سزا بھی دے ۔

اس فیصلے کے بعد میرکل کے آئندہ چار برسوں تک ملکی چانسلر بنے رہنے کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے اور یورپ کی اس طاقتور ترین معیشت میں بظاہر سیاسی عدم استحکام کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔ تاہم ایس پی ڈی کا اپنا سیاسی مستقبل کیسا رہے گا، اس کا فیصلہ جرمن عوام چار برس بعد آئندہ انتخابات ہی میں کر پائیں گے۔

مزید پڑھیے: ’کُرس جیسے دوست ہوں تو میرکل کو دشمنوں کی کیا ضرورت‘

مزید پڑھیے: جرمن سوشل ڈیموکریٹس حکومت سازی کے معاملے پر منقسم