1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدریوں میں اضافے کا مطالبہ

24 نومبر 2019

جرمنی میں مہاجرین اور ترک وطن سے متعلقہ امور کے وفاقی دفتر ’بامف‘ کے سربراہ ہانس ایکہارڈ زومر نے ملک سے ایسے تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدریوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے، جن کی جرمنی سے رخصتی قانوناﹰ ایک طے شدہ امر ہے۔

https://p.dw.com/p/3TdBP
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار چوبیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ای پی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق زومر نے فُنکے میڈیا گروپ کے اخبارات کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی سے پناہ کے متلاشی ایسے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے عمل میں بہت دشواریاں پیش آ رہی ہیں، جنہیں قانوناﹰ اب جرمنی میں نہیں ہونا چاہیے۔

زومر نے کہا کہ ایسے غیر ملکیوں کو معمول کی تجارتی پروازوں کے ذریعے ملک بدر کرنا اس لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ مختلف فضائی کمپنیوں کے کمرشل ہوائی جہازوں کے پائلٹ اکثر ایسے مسافروں کو طیاروں میں سوار کرانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے مسافروں کے ساتھ جرمن پولیس اہلکاروں کو بھیجنا بھی لازمی ہوتا ہے اور اس وجہ سے انتظامی معاملات بےتحاشا اخراجات کے علاوہ بہت زیادہ طوالت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی عملے کو دوران پرواز ممکنہ بدامنی کا خدشہ بھی رہتا ہے۔

بامف (BAMF) کے سربراہ زومر نے کہا کہ اس صورت حال کا حل یہ ہے کہ جرمنی سے ایسے غیر ملکیوں کو زیادہ تیز رفتاری سے اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں لیکن خصوصی پروازوں کے ذریعے اجتماعی طور پر ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک میں بھجوایا جائے۔

گزشتہ برس 30 ہزار غیر ملکی ملک بدر نہ کیے جا سکے

ہانس ایکہارڈ زومر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حالات کے باعث جرمنی میں گزشتہ برس 30 ہزار سے زائد تارکین وطن کی ملک بدری کے مجوزہ پروگراموں پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پناہ کے ایسے ناکام درخواست دہندگان کی ملک بدری کے لیے ان کے آبائی ممالک کے جرمنی میں کام کرنے والے سفارت خانوں سے ان کے پاسپورٹوں کے متبادل کے طور پر ہنگامی سفری دستاویزات حاصل کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔

بامف کے سربراہ نے کہا کہ ان حالات میں ملک بدر کیے جانے سے پہلے ایسے تارکین وطن کو حفاظتی تحویل میں لے لینا پولیس کے لیے ایک ایسا مددگار عمل ثابت ہوتا ہے، جس سے پولیس کا کام ختم تو نہیں ہوتا لیکن کچھ آسان ضرور ہو جاتا ہے۔

ڈھائی لاکھ غیر ملکیوں کی ملک بدری طے شدہ امر

جرمن میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس سال جون کے آخر تک ملک میں ایسے غیر ملکیوں کی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ 47 ہزار بنتی تھی، جن کے لیے یہ ضروری ہو چکا تھا کہ وہ جرمنی سے چلے جائیں۔ ان میں  سے ایک لاکھ 45 ہزار غیر ملکی ایسے تھے، جن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔

اس کے علاوہ سال رواں کی پہلی ششماہی کے آخر تک جرمنی میں ایسے تارکین وطن کی تعداد بھی ایک لاکھ 19 ہزار کے قریب تھی، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں تو مسترد ہو چکی تھیں مگر جنہیں مختلف وجوہات کی بنا پر ملک میں قیام کے عارضی اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔

ایسے اجازت ناموں کو جرمن زبان میں 'ڈُلڈُنگ‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے غیر ملکیوں کے جرمنی میں قیام کو عبوری طور پر برداشت کیا جا رہا ہے اور انہیں بوجوہ فوراﹰ ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔

بامف کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی میں جرمنی سے اس وفاقی دفتر کے اہلکاروں نے وفاقی پولیس کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر پناہ کے قریب ساڑھے گیارہ ہزار ناکام درخواست دہندگان کو ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک بھیج دیا گیا۔

م م / ع ح (ای پی ڈی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں