1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر اور مہاجرین سے متعلق ’بامف‘ اسکینڈل

4 جون 2018

جرمن چانسلر بھی مہاجرین کے بحران کی زد میں ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کرسٹیان ٹرِپّے کے مطابق میرکل کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے وضاحت کریں کہ وہ ’بامف‘ کے حالات سے متعلق کیا جانتی تھیں؟

https://p.dw.com/p/2yuP0
Symbolbild BAMF
تصویر: Getty Images/S. Gallup

سیاسی اسکینڈل ایک خاص منطق کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی مثال اس چھوٹے سے پتھر جیسی ہوتی ہے، جو کسی جھیل میں پھینکا جاتا ہے۔ اس پتھر کے پانی میں گرتے ہی اچانک گول دائرے کی شکل میں لہریں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ان کا دائرہ پھر پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ جب تک یہ اثرات سامنے آتے ہیں، تب تک پتھر دور کہیں پانی میں ڈوب چکا ہوتا ہے۔

یہ چھوٹا سا پتھر چند ہفتے پہلے جرمن صوبے بریمن میں گرا تھا۔ الزام ہے کہ وہاں وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن (BAMF) ’بامف‘ کے مقامی اہلکاروں کی طرف سے سینکڑوں مہاجرین کو بلاجواز جرمنی میں رہائش کے اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔ لیکن اب یہ کہانی صرف مقامی نہیں رہی۔

مہاجرین کی سیاست پر حملہ

پانی میں پھینکے گئے پتھر کی طرح ہر اضافی دائرے کے ساتھ اب یہ اسکینڈل وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی ’بامف‘ کے کئی دیگر دفاتر بھی نظر میں آئے اور اب وہاں بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ جرمنی بھر میں ہزاروں مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

Deutsche Welle Dr. Christian F. Trippe TV Berlin
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کرسٹیان ٹرِپّےتصویر: DW/B. Geilert

’بامف‘ کا ادارہ برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اب سیاسی قیادت کے ناکام ہونے کا سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ کون کب کیا جانتا تھا؟ کس کے پاس اہم معلومات تھیں اور کون اس کے سیاسی یا ذاتی سطح پر نتائج قبول کرے گا؟ اب وفاقی وزارت داخلہ سے اس حوالے سے جواب طلب کیے جا رہے ہیں اور ایک چھوٹے سے جھٹکے سے پیدا ہونے والی لہریں اب برلن تک پہنچ چکی ہیں۔

اب اگلی لہر براہ راست جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے جا ٹکرائی ہے۔ اندرونی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’بامف‘ کے سابق سربراہ فرانک ژُرگن وائزے نے ذاتی طور پر اس ادارے کے مشکل حالات کے بارے میں انگیلا میرکل کو آگاہ کیا تھا۔

میرکل ’بی اے ایم ایف‘ کے مسائل سے باخبر تھیں، رپورٹ

وائزے اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے وزارت داخلہ کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہیں، ’’وہاں لوگ اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ’بامف‘ میں کس قدر وسائل کی کمی ہے اور نقائص موجود ہیں۔‘‘ ان کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر سیاسی پناہ کی تقریباﹰ دس لاکھ درخواستوں کو نمٹانے کے ہدف سے اس کی حالت مزید خراب ہو گئی تھی۔

فرانک ژُرگن وائزے اس وجہ سے بھی ناراض ہیں کہ انہوں نے کسی حادثے سے بچنے کے لیے سن دو ہزار پندرہ میں ہی چانسلر میرکل سے کہا تھا کہ ’بامف‘ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ سابق وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کو بنا رہے ہیں۔ انہیں انگیلا میرکل نے بلاجواز ہی نئی کابینہ میں شامل کرنے سے گریز نہیں کیا، ان کا سیاسی کیریئر اب یقینی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ باقی اعلیٰ قیادت کے اراکین اس اسکینڈل سے محفوظ رہے ہیں۔ میرکل تک اس اسکینڈل کی لہریں پہنچی تو ہیں لیکن انتہائی کم۔

کیا یہ اسکینڈل میرکل کے لیے خطرناک ہے؟

برلن میں فی الحال اس حوالے سے اختلافات ہیں کہ آیا معاملے کی مزید وضاحت اور انکوائری کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے؟ ایسی کسی بھی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے پاس واضح ووٹ موجود ہیں لیکن اپوزیشن، خاص طور پر گرین پارٹی، اس حوالے سے خدشات کا شکار ہے کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کو انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ یہ جماعت چانسلر میرکل کی مہاجرین سے متعلق سیاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنا سکتی ہے۔

یہاں پر جھیل میں پھینکے گئے پتھر والی مثال دوبارہ صادق آتی ہے۔ جب یہ لہریں کنارے تک پہنچتی ہیں تو بہت ہی کمزور ہو چکی ہوتی ہیں اور یہ نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتیں۔ اگر اس سیاسی اسکینڈل کے حوالے سے دیکھا جائے تو انگیلا میرکل کو اب اس سے کوئی زیادہ  نقصان نہیں پہنچتا کہ ایک سابق اعلیٰ عہدیدار اب پریشان ہے۔