1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن عوام میں مہاجرین کے حوالے سے شکوک و شبہات اور زیادہ

عاطف توقیر15 جنوری 2016

جرمن عوام میں ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے کہ آیا ان کا ملک مہاجرین کے موجودہ شدید بحران کا مقابلہ کر پائے گا۔ کولون شہر میں نئے سال کے موقع پر بڑے پیمانے پر خواتین پر جنسی حملوں کے بعد ان خدشات کو مزید تقویت ملی۔

https://p.dw.com/p/1He6f
Köln Pegida rechte Demonstranten
تصویر: Reuters/W.Rattay

جرمن عوام میں ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے کہ آیا ان کا ملک مہاجرین کے موجودہ شدید بحران کا مقابلہ کر پائے گا۔ کولون شہر میں نئے سال کے موقع پر بڑے پیمانے پر خواتین پر جنسی حملوں کے بعد ان خدشات کو مزید تقویت ملی۔

جمعہ پندرہ جنوری کے روز جاری کردہ ایک نئے عوامی سروے کے نتائج کے مطابق جرمن باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے اس سلسلے میں اپنے خدشات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

پبلک سروس ٹی وی ARD کی جانب سے ’ڈوئچ لینڈ ٹرینڈ‘ گروپ کے اس سروے میں قریب 51 فیصد بالغ جرمن شہریوں نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ وفاقی چانسلر میرکل اپنا یہ دعویٰ دہرا سکتی ہیں کہ ’ہم اس معاملے سے نمٹ سکتے ہیں‘، یعنی جرمنی مہاجرین کے اس بہاؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Deutschland Köln Proteste nach sexuellen Übergriffen
کولون واقعات کے بعد جرمنی میں مہاجرین کے انضمام سے متعلق بحث شدید ہو گئی ہےتصویر: Reuters/W. Rattay

گزشتہ برس اکتوبر میں ایسے ہی ایک سروے میں 48 فیصد جرمن رائے دہندگان نے ایسے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ نئے سروے میں 48 فیصد جرمن شہریوں نے کہا کہ انہیں مہاجرین سے خوف محسوس ہوتا ہے، جب کہ 50 فیصد نے اس بارے میں اپنی رائے نہیں دی۔ مہاجرین سے خوف سے متعلق سوال اکتوبر میں کیے گئے سروے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس نئے سروے میں جنوری کی 12 اور 13 تاریخ کو ٹیلی فون پر ایک ہزار افراد کی رائے معلوم کی گئی۔

یہ بات اہم ہے کہ عرب اور شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے نئے سال کے موقع پر کولون اور متعدد دیگر شہروں میں سینکڑوں خواتین پر جنسی حملوں، چھینا جھپٹی، رہزنی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے واقعات سامنے آئے تھے۔

کل جمعرات چودہ جنوری تک پولیس کو کولون میں نئے سال کے موقع پر ایسے حملوں کی 652 قانونی شکایات موصول ہو چکی تھیں، جن میں سے 331 جنسی حملوں سے متعلق ہیں۔ ان واقعات کے بعد جرمنی بھر میں مہاجرین سے متعلق بحث میں خاصی شدت پیدا ہو چکی ہے۔گزشتہ برس جرمنی میں گیارہ لاکھ مہاجرین داخل ہوئے، جن میں سے بڑی تعداد شامی، افغان اور عراقی باشندوں کی تھی۔

جرمن چانسلر میرکل کا موقف ہے کہ جنگ زدہ علاقوں سے اپنی زندگی بچانے کے لیے جرمنی آنے والوں کے لیے دروازے بند نہیں کیے جائیں گے۔ وہ اس سے قبل اپنی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مہاجرین کی آمد کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنے کے حوالے سے مطالبات بھی مسترد کر چکی ہیں۔ تاہم ان واقعات کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرین کی بابت نئی قانون سازی کی ہے، جس کے تحت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی ملک بدری کو آسان بنایا جا رہا ہے۔