صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا پارلیمانی الیکشن اہم کیوں؟
15 مئی 2022جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ہمیشہ وفاقی الیکشن کی ایک مختصر 'شکل‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس صوبے یا ریاست کا گنجان آباد ہونا اور ملک کی اقتصادیات کے لیے اہم ہونا ہے۔ کئی سماجی و معاشی جہتوں کے ساتھ یہ ایک اہم وفاقی ریاست تصور کی جاتی ہے۔
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ملکی انتخابات کے آٹھ ماہ بعد مقامی آبادی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرے گی۔ اس ریاست میں رجسٹرد ووٹرز کی کُل تعداد 18 ملین ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بہت اہم الیکشن ہیں اور نتائج کے اثرات وفاقی حکومت پر بھی ہوں گے۔
ایس پی ڈی بمقابلہ سی ڈی یو
برلن میں سوشل ڈیموکریٹ لیڈر چانسلر اولاف شولس گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مخلوط قائم کر چکے ہیں۔ اس وفاقی حکومت کو یوکرینی جنگ اور انرجی بحران کی شدت کا سامنا ہے۔ جرمنی اس کوشش میں ہے کہ وہ روسی گیس پر انحصار کو کم سے کم کر سکے۔ ادھر نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی آبادی کو انرجی کی بڑھتی قیمتوں اور مہنگائی کا سامنا ہے۔
یوکرین کو بھاری اسلحے کی فراہمی، جرمن عوام منقسم
یہ صوبہ ماضی میں کوئلے کی کان کنی کی وجہ سے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا مضبوط گڑھ تھا لیکن سن 2017 میں حالات بدلے اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس مخلوط صوبائی حکومت میں سی ڈی یو کی پارٹنر فری ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق دونوں بڑی جماعتوں میں سخت مقابلے کا امکان ہے لیکن سی ڈی یو کو معمولی سی برتری حاصل ہے۔ ان جائزوں کے مطابق سی ڈی یو کو 30 فیصد اور ایس پی ڈی کو 28 فیصد عوامی مقبولیت حاصل ہے۔
این آر وے کے الیکشن کی اہمیت
مُنسٹر یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنٹسٹ پروفیسر کلاؤس شوبیرٹ کا کہنا ہے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے الیکشن تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے اہم ہیں کیونکہ یہ ایک ملک جتنا بڑا صوبہ ہے، مثال کے طور پر نیدرلینڈ جتنا اور اس کی سالانہ ترقی کی رفتار یا جی ڈی پی بھی اس ملک یعنی نیدرلینڈز کے مساوی ہے۔ شوبیرٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس صوبے کی عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ کم و بیش سارے ملک کو درپیش ہیں۔ ان کا اشارہ یوکرینی جنگ اور انرجی کی فراہمی کی جانب ہے۔
پروفیسر شوبیرٹ کا کہنا ہے کہ ریاست کی سطح پر پارٹی سے زیادہ مقامی رہنما زیادہ اہم ہوتا ہے اور اس باعث مقابلہ ابھی تک کھلا ہے۔ ان کے مطابق ایک طرف سی ڈی یو کے وزیر اعلیٰ ہینڈریک وُورسٹ ہیں جو چھ ماہ قبل اس منصب پر فائز ہوئے تھے اور وہ الیکشن میں اپنا امیج مضبوط بنانے میں بظاہر کوئی زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔
جرمنی نے اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی جاری کر دی
ہینڈرک وورسٹ سے قبل صوبائی وزیر اعلیٰ ارمین لاشیٹ چانسلر کی تمنا میں سیاسی طور شکست پا چکے ہیں اور ان کی جگہ پر ہی متبادل کے طور پر نئے وزیر اعلیٰ کو بٹھایا گیا۔ اس وقت وُورسٹ کی خواہش ہے کہ وہ شلیسوگ ہولشٹائن ریاست کے حال ہی میں کامیاب ہونے والے وزیر اعلیٰ ڈینیئل گُنٹر کا ساتھ حاصل کر کے الیکشن کے مردِ میدان بن جائیں۔
ایس پی ڈی کے مرکزی امیدوار
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے وزیر اعلیٰ ہینڈرک وورسٹ کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تھوماس کوٹشاٹی کا سامنا ہے۔ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے کوٹشاٹی ایک پیشہ ور وکیل ہیں۔ اپنی انتخابی مہم میں وہ مسلسل چانسلر اولاف شولس کے ساتھ تعلقات کو اہم قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب اس وقت شولس کی مقبولیت کو زوال کا سامنا ہے۔
پروفیسر شوبیرٹ کا خیال ہے کہ آخری وقت میں برلن کی حمایت سے ایک یا دو فیصد کا فرق پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ امکانی طور پر گرین ایس پی ڈی کی حمایت کر سکتی ہے اور ایف ڈی پی صوبائی مخلوط حکومت کی بڑی جماعت سی ڈی یو کے حق میں جا سکتی ہے۔
چھوٹی پارٹیوں میں فری ڈیموکریٹک پارٹی کی سن 2017ء میں ملنے والی 12.5 فیصد سے زائد کی عوامی حمایت گر کر سات فیصد ہو چکی ہے۔ گرین پارٹی کو اس وقت 'کنگ میکر‘ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ سابقہ انتخابات میں اس کی عوامی مقبولیت ساڑھے چھ فیصد کے قریب تھی، جو اب 16 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
جرمنی کی انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو گزشتہ ہفتے شلیسوگ ہولشٹائن میں پہلی بڑی شکست ہو چکی ہے اور پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے درکار کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں بھی اسے ناکامی ہوئی ہے۔
الزبیتھ شوماخر (ع ح/ا ب ا)