1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن تنظیم ہائنرش بوئل کو پاکستان کیوں چھوڑنا پڑا؟

عبدالستار، اسلام آباد رافعہ اعوان
15 اپریل 2019

ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کے مطابق سخت ضوابط کی وجہ سے وہ پاکستان میں موثر انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ پا رہی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دیگر غیر سرکاری تنظیموں کو بھی پاکستانی حکام کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Gn1B
Heinrich Böll Stiftung Logo
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Newsome

گزشتہ 25 سال سے ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن جمہوریت کے فروغ، ماحولیاتی پائیداری، پاکستان میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے کام کر رہی تھی۔ اس فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر جرمن دارالحکومت برلن میں قائم ہے۔ رواں برس مارچ میں اس فاؤنڈيشن نے پاکستان میں اپنے تمام تر سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔

ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کے تعلقات عامہ کی مینیجر ماورا باری کے مطابق،’’سول سوسائٹی کے حوالے سے عدم اعتماد کی بڑھتی ہوئی فضا کی وجہ سے فاؤنڈيشن کی سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بنیادی ڈھانچے میں حکومتی کی جانب سے متعارف کردہ تبدیلوں کے باعث سول سوسائٹی کا کردار محدود ہو رہا ہے۔‘‘ ان کے بقول پاکستان میں کام جاری رکھنے کے لیے ’ایچ بی ایس‘ کو سازگار ماحول کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کے اعتماد کی بھی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی تنظیموں کے لیے متعارف کردہ مفاہمت کی یادداشت میں مخصوص شعبوں میں سرگرمیاں محدود کرنے کی بات کی، ’’مثال کے طور پر اب جمہوری، سیاسی شعبے اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

پاکستانی حکام کی حالت بے یقینی

پاکستانی آبادی کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مبنی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقعوں کی بھی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بین الاقوامی این جی اوز ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کر سکتی ہیں۔ جبکہ یہ تنظیمیں ملک کی مثبت ساکھ کو فروغ دیتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب متوجہ کر سکتی ہیں۔

سن 2015 میں ٫سیو دی چلڈرن‘ نامی ایک این جی او کو آپریشن بندکرنے کا کہا گیا اور غیر ملکی کارکنوں کو ملک چھوڑنے کے لیے 15 دن کا وقت دیا گیا تھا۔

کیا پاکستان کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے؟

پاکستان میں غیر ملکی امدادی گروپ کے دیگر ناقدین نے غیر سرکاری تنظیموں پر پابندیوں کو جائز قرار دیا  ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ تنظیمیں اکثر اپنے اختیارات یا دیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کر جاتی ہیں۔

پاکستانی فوج کے سابق سینیئر عہدیدار امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو ڈی کو بتایا،’’ کچھ غیر سرکاری ادارے ریاستی عناصرکے خلاف سہولت کار ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں۔کاغذات کے مطابق ان کا کام شہری علاقوں کی طرف ہے مگر وہ دیہی علاقوں جیسے اندرون سندھ میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے غیر سرکاری تنظیمں، جو دستاویزات کی حد تک پناہ گزینوں کی امداد کے لیے بنائی گئی ہیں، نجی پارٹیوں میں حساس معلومات حاصل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے نائب چیئرمین اسد اقبال بٹ نے کہا،’’ان کی تنظیم کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ آزاد خیال یا مسائل پر آواز بلند کرنے والوں کے لیے بے شمار مشکلات ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کو ہی نہیں بلکہ پاکستان این جی اوز کو ملکی اداروں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں