1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیورپ

جرمن تنظیم نے سینکڑوں مہاجرین کو بچا لیا

27 دسمبر 2021

گزشتہ کئی دنوں کے دوران بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے سے درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جرمنی کے علاوہ یونان اور تیونس کے ساحلی محافظوں نے بھی کامیاب امدادی مشن کی اطلاعات دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/44r7n
Sea-Watch rettet 180 Bootsmigranten aus Seenot
تصویر: Max Brugger/Sea-Watch/dpa/picture alliance

جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم سی واچ نے کرسمس کی تعطیلات کے موقع پر بحیرہ روم  میں سینکڑوں افراد کو ڈوبنے سے بچایا ہے۔ 26 دسمبر اتوار کے روز بھی بحیرہ روم میں پھنسی ایک کشتی سے تقریباً 96 افراد کو بچا لیا گیا۔ سی واچ کے مطابق گزشتہ تین دنوں کے دوران ان کا یہ پانچواں ریسکیو مشن تھا۔

اواخر ہفتہ اس جرمن تنظیم نے مجموعی طور پر تقریباً 446 تارکین وطن کو بچایا اور پھر انہیں اپنے جہاز "سی واچ تھری" پر سوار کیا۔  اتوار کے روز جن افراد کو بچایا گيا ان میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھیں جبکہ پانچ امدادی کارروائیوں میں جن تمام افراد کو ریسکیو کیا گيا ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف دو ہی ہفتے کی تھی۔

بحیرہ روم میں اب تک کتنے افراد ہلاک ہو چکے ہیں؟

حالیہ دنوں میں بحیرہ روم میں گنجائش سے زیادہ بھری کشتیوں کے الٹنے سے درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم اسی دوران جرمن امدادی تنظیم سی واچ مصیبت میں گھری تارکین وطن کی کئی کشتیوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب رہی۔

کرسمس کے موقع پر ہی، یونان کے  کوسٹ گارڈز نے بحیرہ ایجیئن میں پھنسے دو بحری جہازوں سے 27 لاشیں نکالیں۔ اس کے علاوہ اتوار کے روز ہی لیبیا کے ساحل سے بھی تقریبا 28 لاشیں ملی ہیں۔

Deutsches Hilfsschiff Sea-Watch 4 rettet Bootsmigranten im zentralen Mittelmeer
تصویر: Suzanne De Carrasco/Sea-Watch/Handout via REUTERS

بدھ کو فولگینڈروس جزیرے کے قریب ایک کشتی ڈوب گئی تھی، جس میں کم از کم تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی جبکہ درجنوں اب بھی لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن مطابق، بحیرہ ایجیئن میں یہ اس برس کا اب تک کا ہلاکت خیز ترین واقعہ ہے۔  

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اب تک 1600 افراد بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

ادھر سی واچ نے تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیوں پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی ہے کہ  کچھ لوگ تو خطرناک آبی گزرگاہ عبور  کر کے یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، "تاہم ہزاروں دیگر افراد کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔"

دیگر امدادی مشن کیا تھے؟

تیونس اور یونان کے ساحلی محافظوں نے بھی کرسمس کے موقع پر بعض کامیاب ریسکیو مشن انجام دیے ہیں۔ جمعے کے روز، جنوبی یونان کے ساحل پر92 افراد کو  بچایا گيا تھا۔

Deutsches Hilfsschiff Sea-Watch 4 rettet Bootsmigranten im zentralen Mittelmeer
تصویر: Suzanne De Carrasco/Sea-Watch/Handout via REUTERS

اطلاعات کے مطابق تین مشتبہ اسمگلرز نے پیدل فرار ہونے کی کوشش کی تھی تاہم بعد میں انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ تیونس کے ساحلی محافظوں نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ انہوں نے لیبیا کے ساحل سے یورپ کی طرف روانہ ہونے والے 48 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا۔

یورپی یونین کے علاقوں تک پہنچنے کی کوشش میں ایسے اکثر پناہ گزیں شمالی افریقہ سے روانہ ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کی منزل اٹلی ہوتی ہے۔

سن 2015 کے بعد سے، اب تک تقریباً 10 لاکھ افراد، ترکی سے یونان پہنچے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق خانہ جنگی  کے شکار ملک شام سے ہے۔

 ص ز/ ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ترکی پہنچنے والے افغان پناہ گزین شدید مشکل میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں