1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپانی عورتوں کے لیے داعش میں کیا کشش ہے؟

مقبول ملک جولیان رائل، ٹوکیو
13 ستمبر 2017

عراق سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے گڑھ موصل پر قبضے کے بعد حراست میں لی گئی خواتین میں پانچ جاپانی عورتیں بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جاپانی خواتین کے لیے داعش میں کیا کشش ہے؟

https://p.dw.com/p/2jsu4
تصویر: picture-alliance/Zuma Press

اس بارے میں جاپانی دارالحکومت ٹوکیو سے ڈوئچے ویلے کے نامہ نگار جولیان رائل لکھتے ہیں کہ تجزیہ نگار اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں کہ وہ جاپانی خواتین، جنہیں اپنے بہت ترقی یافتہ ملک میں محفوظ اور پرامن زندگی کے جملہ امکانات میسر تھے، انہوں نے اپنے لیے مذہبی شدت پسندی کے ماحول سے عبارت ایک جنگی خطے میں  منتقلی کا فیصلہ کیوں کیا؟

جاپان میں اس امر کی وجہ سے ابھی تک دھچکے کی سی کیفیت پائی جاتی ہے کہ مٹھی بھر ہی سہی لیکن عراقی شہر موصل سے گرفتار ہونے والی جاپانی خواتین نے بظاہر بدامنی کے شکار اس خطے کا سفر اس لیے کیا کہ وہاں وہ داعش کے جہادیوں سے شادیاں کر سکیں۔ ان جاپانی خواتین کے اسی اقدام کے باعث عراق میں انہیں درپیش حالات پر جاپان میں بہت کم ہمدردی پائی جاتی ہے۔

Irak | Frau mit Kind in einem Lager in der Nähe von Mossul
موصل کے قریب داعش کے جہادیوں کے اہل خانہ کے ایک کیمپ میں مقیم دو خواتین، ساتھ ہی ایک خاتون کا بچہ لیٹا ہوا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Szlanko

مقبوضہ علاقوں میں پسپائی مگر اسلامک اسٹیٹ کے حملوں میں اضافہ

عراقی فوج کی تَل عَفر پر چڑھائی

بارسلونا حملے کی ذمہ داری ’ داعش‘ نے قبول کر لی

عراق سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شمالی عراق میں داخلی نقل مکانی کے بعد جن ’بے گھر‘ افراد کو سکیورٹی اہلکاورں کی نگرانی میں ایک مرکزی کیمپ میں رکھا گیا ہے، ان میں اس وقت بھی 1330 سے زائد غیر ملکی خواتین اور بچے شامل ہیں۔

ان غیر ملکیوں میں سے کئی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ پسپا ہوتے ہوئے داعش کے جہادیوں کے ایسے اہل خانہ ہیں، جنہوں نے پہلے موصل اور پھر اگست کے اواخر میں موصل کے قریب داعش کے ایک اور گڑھ تلعفر پر قبضے کے بعد خود کو مسلسل پیش قدمی کرتی ہوئی کرد فورسز کے حوالے کر دیا تھا۔

حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘

اس کیمپ میں موجود تیرہ سو سے زائد غیر ملکی خواتین اور بچوں کا تعلق 14 مختلف ممالک سے ہے، جن میں جاپان کی نیوز ایجنسی شوکان بُن شُن کے مطابق پانچ جاپانی شہری بھی شامل ہیں۔ خود جاپانی حکام نے ابھی تک عراق میں ’داعش کے جہادیوں کے اہل خانہ‘ قرار دی جانے والی ان پانچ جاپانی خواتین کے ناموں یا عمروں سے متعلق کوئی بھی معلومات مہیا نہیں کیں۔

جولیان رائل لکھتے ہیں کہ جاپانی حکام ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے ان ہم وطن افراد کو داعش میں کیا کشش نظر آئی تھی کہ انہوں نے عراق جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

عراق: ’داعش کا مقدس مزارات پر حملوں کا منصوبہ ناکام بنا دیا‘

’داعش کی جرمن دلہن‘ وطن لوٹ کر کیا کرے گی؟

امریکا داعش کے خلاف جاری جنگ جیتنے کے قریب ہے، پینٹا گون

جاپانی عوام کے لیے عراق میں ان کے ان پانچ ہم وطنوں کی موجودگی کی اطلاع اس لیے بھی ایک دھچکا ثابت ہوئی تھی کہ آج تک جاپان سے اگر کسی نے ممکنہ طور پر داعش میں شامل ہونے کی کوئی کوشش کی بھی تھی، تو وہ صرف ایک نوجوان طالب علم تھا۔

یہ نوجوان ہوکائیڈو یونیورسٹی کا ایک طالب علم تھا، جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایک ’انقلابی جدوجہد‘ میں شمولیت کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اسے اس اعلان پر حکام نے ہوکائیڈو میں ہی گرفتار کر لیا تھا۔

کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟

جولیان رائل لکھتے ہیں کہ جاپانی خواتین نے اگر اپنے ملک سے نکل کر شام یا عراق میں داعش کے جہادیوں کی صفوں میں شامل ہونے کی کوشش کی، تو یہ حقائق بہت سے یورپی ممالک کی خواتین کی ان داستانوں سے مختلف بالکل نہیں، جو سینکڑوں کی تعداد میں اپنے اپنے ممالک سے آ کر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کے ساتھ رہنا شروع ہو گئی تھیں۔

شام میں امریکی فوجی چوکیوں کا انکشاف ’پرخطر اقدام‘، پینٹاگون

داعش کے ’دارالخلافہ‘ الرقہ میں جہادیوں پر شدید حملے

البغدادی ہلاک ہوا یا نہیں؟

ان خواتین کا جاپان یا مغربی یورپی ممالک جیسے اپنے آبائی وطنوں سے شام اور عراق کا سفر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ زیادہ تر سوشل میڈیا پر داعش یا دیگر جہادی تنظیموں کے پراپیگنڈے سے کس حد تک متاثر ہو جاتی ہیں کہ پھر وہ اپنا پرسکون طرز زندگی ترک کر کے کسی جنگی خطے تک میں انتہائی پرخطر حالات میں رہنے کو بھی اپنا درست فیصلہ ہی سمجھتی ہیں۔

اس بارے میں جاپان کی ہوکائیڈو بُنک یو یونیورسٹی کے میڈیا اور ابلاغیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ماکوتو واتانابے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سوشل میڈیا کے منفی اثرات قبول کرنے میں جاپانی نوجوان بھی دیگر ممالک کے نوجوانوں سے مختلف نہیں ہیں۔ خاص طور پر اس تناظر میں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے جاپانی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے ارد گرد کے باقی ماندہ معاشرے سے کافی حد تک کٹی ہوئی ہے۔‘‘