1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجاپان

جاپان میں اچانک غائب ہونے والے لوگ آخر کہاں جاتے ہیں؟

18 جنوری 2022

جاپان کے لوگ کسی بھی ایسے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں جو ان کے لیے شرم یا ناکامی کا باعث ہو۔ ایسے ہزاروں افراد جن کے لیے مسائل حد سے تجاوز کر جائیں وہ روپوش ہو جاتے ہیں اور گمنامی کی زندگی جینا پسند کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/45hYj
Japan Volle U-Bahn in Tokio
تصویر: Getty Images/AFP/T. Yamanaka

24 سالہ کیموکی میاموٹو 2002 مارچ کی ایک صبح معمول کے مطابق کام پر نکلے۔ لیکن آفس جانے کے بجائے ان کی منزل ٹوکیو کا ساحلِ سمندر تھا۔  ٹوکیو کے ساحل سے ہر رات ایک بحری جہاز روانا ہوتا ہے جو ملک کے مختلف ساحلی علاقوں کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔  کیمیوکی اس جہاز پر سوار ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کا کبھی کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ان کے بھائی کو دو دن بعد کشتی کے عملے کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوتی ہے  جس میں انہیں آگاہ کیا جاتا ہے کے کیموکی کا سامان جہاز میں موجود ہے لیکن ان کا کوئی نشان باقی نہیں۔ کیموکی کا خاندان آج تک یہ بات نہیں جان پایا کہ وہ کہاں گئے۔

ہر سال جاپان میں ہزاروں لوگ  اپنی مرضی سے روپوش ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مردہ یا زندہ مل جاتے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو برسوں سے لاپتا ہیں۔ جاپان میں اس عمل کو 'جوہاتسو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے، وہ لوگ جو دانستہ غائب ہوجاتے ہیں اور کسی اور علاقے میں اپنی پہچان بدل کر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ان روپوش ہوجانے والے لوگوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔

لاکھوں جاپانی شہری، تنہا زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟

جاپانی اپنی ناکامیوں کی وجہ سے رضاکارانہ طور پر گمشدہ ہونا چاہتے ہیں

جاپان میں گمشدہ ہو جانے کا یہ عمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1967 میں بننے والی ''دی ایویپوریشن آف مین‘‘ نامی ایک دستاویزی فلم میں اسی موضوع کو فلمایا گیا تھا۔  1970 تک جاپان میں اس روایت نے زور پکڑ لیا۔ لوگ اس طریقے کو اپنا کر اپنی ناکام شادیوں سے چھٹکارا پانے لگے کیونکہ جاپان میں روایتی طلاق ایک مشکل مرحلہ تھا۔  ملکی اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 100,000 جاپانی مرد اور خواتین سالانہ غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ خود اپنی گمشدگیوں کے منصوبہ ساز ہوتے ہیں۔

 ان خود ساختہ گمشدگیوں کے پیچھے کئی محرکات ہوتے ہیں جیسے کہ طلاق، قرض، بے روزگاری، امتحان میں ناکام ہونا اور کئی ایسی چیزیں جو ان کے لیے کسی بھی طور پر شرم کا باعث ہوں۔ جاپانی معاشرہ عام طور پر شرم کی ثقافت پر مبنی ہے۔ غیر معقول توقعات پر شرمندہ ہونا، خاندان، آجروں اور یہاں تک کہ ملک سے متعلق کوئی بھی ناکامی یا شرمندگی جاپانیوں کے لیے موت سے بھی بدتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ خودکشی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اکثر لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔

جاپان میں بڑھتی 'ایویپوریشن ‘ کمپنیز

اس گمشدگی کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے اب جاپان میں باقاعدہ ایسے ادارے کھل گئے ہیں جو لوگوں کو روپوش ہو کر نئی زندگیاں شروع کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔  ان اداروں کو 'ایویپوریشن کمپنیز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب قومی بے شرمی جیسی اصطلاحات اپنے عروج پر تھیں  اوراس کے بعد  1989 اور 2008 کے مالیاتی بحرانوں کے نتیجے میں بھی جاپان میں لوگوں نے معاشرے میں 'تحلیل ہوجانے‘ کے اپنے عمل کو تیز کر دیا۔ مسلسل ناکامیاں اور گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے قرض تلے دبے ان لوگوں کے لیے یہ ایک راہِ فرار تھی جو کبھی نہیں ملنا چاہتے تھے اور اپنی گمشدگیوں کو اغوا کی طرح دکھانا چاہتے تھے۔

دانستہ گم افراد کے منتظر خاندان والے اور ملک کا سخت قانون

ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کے شعبے میں جاپان کے سخت قوانین کی وجہ سے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ ان خود ساختہ گمشدہ لوگوں کا قانونی طور پر سراغ لگایا جا سکے۔ پولیس ان تک تبھی پہنچ سکتی ہے جب کوئی مقدمہ (جیسے قتل کا مقدمہ) درج کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص غائب ہوجاتا ہے تو یہ کریمنل کیس نہیں بلکہ ایک سول کیس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ''لاپتا افراد‘‘ کے رشتہ داروں کے پاس اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار نہیں ہوتا ہے۔ وہ پولیس سے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے یا بلنگ ڈیٹا استعمال کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔

کیونکہ قانونﹰ ایک شخص کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جیسے چاہے بسر کرے۔ تاہم گمشدہ افراد کے اہل خانہ ان کی واپسی کے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں۔ جیسے کیموکی کے بھائی  جن کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا، ''اسے گھر آنا چاہیے ہمارے والدین پہلے ہی بوڑھے ہو چکے ہیں، اور وہ خوش ہوں گے اگر وہ ایک سادہ فون کال کرے۔ صرف ایک بار اس کی آواز سنیں۔‘‘