1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جانسن اور برنارڈ کی بکواس

24 دسمبر 2022

معروف برطانوی عالم اور سیاست دان سیموئل جانسن سے یہ قول منسوب ہے کہ ”حب الوطنی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔‘‘ بیسویں صدی میں جارج برنارڈ شا نے مبینہ طور پر اس فقرے میں ترمیم کی کہ ”سیاست بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے‘‘۔

https://p.dw.com/p/4LOet
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

اگر مذکورہ اقوال کو من و عن لے لیا جائے تو دونوں مؤقر اصحاب کی دماغی صحت پر شبہہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن سیموئل جانسن یا برنارڈ شا کے علمی و ادبی قد کاٹھ کو دیکھا جائے تو پھر انہیں شک کا فائدہ دینا پڑے گا۔ 

 فی زمانہ حب الوطنی جیسے لطیف جذبے کو ذاتی، گروہی، نسلی و نظریاتی مفادات آگے بڑھانے کے لیے جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اور حب الوطنی کے پردے میں ہر طرح کی جنونیت عام کر کے حریفوں کو جیسے نشانے پر رکھا جا رہا ہے۔

 سیاست کے ہنر کو جس طرح بھانت بھانت کی مافیائیں اپنا اثر و رسوخ  اندھا دھند بڑھانے کے لیے پورے پورے سماجی ڈھانچوں کو بے سدھ کر کے یرغمال بنانے کی دوڑ میں مبتلا ہیں اور ملکی مفاد کے نام پر کلپٹو کریسی جس طرح متعدد ریاستوں میں طرح طرح سے اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ اس سب کے ہوتے سیموئیل جانسن یا برنارڈ شا کے مدۂورہ اقوال کو یک بیک مسترد کرنے سے شائد مسئلہ حل نہ ہو۔

اگر میں دیگر ممالک کو چھوڑ کے صرف بھارت اور پاکستان کو ہی ہر دو اصحاب کے اقوال کے آئینے میں دیکھنے کی جرات کروں تو اس آئینے میں بہت سے معززین اور ان کے پروردگان بے لباس نظر آ رہے ہیں۔

ایک زمانے تک سیاسی و ذاتی دشمنی کے درمیان واضح حدِ فاصل کھچی ہوئی تھی۔ کٹر سیاسی دشمن بھی ایک متفقہ غیر رسمی تہذیبی ضابطہِ اخلاق کے دائرے میں ہی رہتے تھے۔

اب یہ فرق تیزی سے مٹتا جا رہا ہے۔ پارلیمانی زبان اور تھڑے کی بازاری گفتگو میں تمیز نہ صرف مشکل تر ہو گئی ہے بلکہ کسی بھی نام نہاد رہنما یا مدبر  کی جانب سے اس کی حوصلہ شکنی یا ناپسندیدگی کا اظہار عنقا ہوتا جا رہا ہے۔

حالت یہ ہو گئی ہے کہ والدین اب اس مشکل میں مبتلا ہیں کہ  کچی عمر کے بچوں کو کسی ٹی وی چینل پر کوئی سیاسی مباحثہ بلا روک ٹوک دیکھنے کی اجازت دیں یا ریموٹ کنٹرول اپنے قبضے میں رکھیں؟

وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اپنے پسندیدہ رہنما کے کسی جلسے یا جلوس میں کنبے سمیت شرکت کریں یا نہ کریں۔بس ایک کسر باقی ہے کہ ہر ٹاک شو کے آغاز سے پہلے یہ ہدایت بھی اسکرین پر آنے لگے کہ یہ پروگرام صرف اٹھارہ برس سے اوپر کے ناظرین کے لیے موزوں ہے۔

تعلیمی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ گاندھی جی اور محمد علی جناح کٹر سیاسی حریف تھے۔ ایک دوسرے پر فقرے بھی کستے تھے، طنز بھی کرتے تھے مگر آمنا سامنا ہونے پر ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرنا بھی نہیں بھولتے تھے۔

اچھا ہی ہوا کہ وہ نسل آج کا سیاسی ماحول دیکھنے سے بہت پہلے گزر گئی اور ان کی یاد اور آبرو صرف کرنسی نوٹ پر  تصویر کی شکل میں محفوظ رہ گئی۔ ورنہ یہ سوچ سوچ کے ہی زندہ درگور ہو جاتے کہ کیا یہ ہیں وہ آئندہ نسلیں جن کی آزادی و خوشحالی کے خواب  کو عملی شکل دینے کی جدوجہد میں ہم نے عمریں تیاگ دیں۔

آج صرف گالم گلوچ، ٹرولنگ اور مجمع کے من و رنجن کے لیے توہین آمیز فقرے اور القابات کافی نہیں رہے۔کسی کو بھی غدار یا ملک دشمن قرار دینے میں بھی کوئی خبریت نہیں رہی۔ایک دوسرے کے خاندان کی خواتین کے بارے میں زو معنی گفتگو سے بھی تسکین نہیں ہو پا رہی۔ اب سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر حریف کو ہر اعتبار سے تباہ کرنے کی نئیت سے کوئی حربہ ناجائز یا گھناؤنا نہیں رہا۔

اب سیاسی دشمنی دالان سے ہوتی ہوئی مائیک اور کیمرے سمیت خواب گاہ میں گھس گئی ہے ۔ایک دوسرے کی آڈیوز اور وڈیوز منظرِ عام پر لانا نیا نارمل ہے ۔

پاکستان کی حد تک یہ کہانی انیس سو ستر میں ہی شروع ہو گئی تھی جب  زوالفقار علی بھٹو کو ملحد اور کیمونسٹ  ایجنٹ کہنے سے کام نہیں چلا تو مذہبی لابی کو حرکت میں لایا گیا اور شورش کاشمیری کے رسالے شہاب نے نہ صرف ایک سو بیس علما کا فتوی شائع کیا کہ جس نے بھٹو کو ووٹ ڈالا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ بلکہ یہ کہانی بھی گھڑی گئی کہ بھٹو کی ولدیت مشکوک ہے اور ختنہ بھی نہیں ہوئی۔ مگر ایسی کردار کشی کا الٹا اثر ہوا اور مغربی پاکستان میں بھٹو سب سے بڑی سیاسی قوت بن کے ابھرا۔

لیکن پروپیگنڈہ اتنا راسخ تھا کہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جھوٹ کو اسٹیبلشمنٹ نے سچ سمجھ لیا۔جیل میں بھٹو صاحب کی نگرانی پر مامور کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ”بھٹو کے آخری تین سو تئیس دن‘‘ میں لکھا  کہ پھانسی کے بعد ریکارڈ  کی خاطر لاش کی جو تصاویر کھینچی گئیں ان میں ایک ایسی تصویر بھی تھی جس سے ختنہ کی تصدیق ہو سکے ۔

بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ضیا الحق کی وارث اسٹیبلشمنٹ نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مدد سے انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔

مجھے یاد ہے کہ جس روز لاہور میں آئی جے آئی کا آخری انتخابی جلسہ ہونا تھا۔ شہر کے کچھ مقامات پر کرائے کے ایک طیارے سے ہینڈ بل سائز کے پوسٹر گرائے گئے۔اس پوسٹر میں بیگم نصرت بھٹو کی ایک پرانی تصویر تھی جس میں وہ وائٹ ہاؤس میں دیے گئے عشائیے کے موقع پر صدر فورڈ  کی ہم رقص تھیں۔ مگر پوسٹر میں وہ تصویر نہیں چھاپی گئی جس میں وزیرِ اعظم بھٹو مسز فورڈ  کے ہم رقص تھے۔

البتہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے آگے ماضیِ قریب کی گھٹیا کردار کشی بھی بچوں کا کھیل لگ رہی ہے۔ اب جب تک مخالف کی عزت تار تار کرنے والی کوئی ایسی تصویر، آڈیو یا وڈیو سامنے نہ آ جائے جس کا شہرہ چار دانگِ عالم میں پٹ سکے تب تک تسکین نہیں ہوتی۔ بالخصوص پچھلے دو ڈھائی برس میں یہ چلن اتنا بڑھا ہے کہ اب کسی پر کسی تصویر، آڈیو یا وڈیو کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

تو کیا سیموئیل جانسن نے دو سو برس پہلے  یا برنارڈ شا نے تقریباً سو برس پہلے حب الوطنی، سیاست اور بدمعاشیہ کے بارے میں جو رائے دی اس پر آج کے تناظر میں دھیان دیا جائے یا نری بکواس سمجھ  کے مسترد کر دیا جائے؟ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔