1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ثابت کریں کہ ہمارے شہر کا وجود ہی نہیں! انعام ایک ملین یورو

شمشیر حیدر اے پی کے ساتھ
21 اگست 2019

برسوں قبل جرمن شہر بیلےفیلڈ کے بارے میں ایک سازشی نظریہ سامنے آیا تھا کہ اس شہر کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ اب اس شہر کے میئر نے اعلان کیا ہے کہ اس سازشی نظریے کو ثابت کرنے والے کو ایک ملین یورو انعام دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/3OHVh
BG 10 gastfreundlichste Städte Bielefeld
تصویر: Imago/ecomedia/R. Fishman

شہر کا نام بیلےفیلڈ، آبادی تین لاکھ نفوس پر مشتمل اور کم از کم بھی آٹھ سو برس پرانا شہر۔ لیکن سن 1993 میں سامنے آنے والے 'بیلے فیلڈ سازشی نظریہ‘ کے مطابق اس شہر کا وجود ہی نہیں ہے۔

جرمنی میں یہ بات عوامی سطح پر بھی اس قدر مشہور ہے کہ اس شہر کے بارے میں لطیفے بھی گھڑے گئے ہیں۔ اب شہر کے میئر نے سازشی نظریے کے تدارک اور کچھ شہرت حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ اس شہر کا واقعی کوئی وجود ہی نہیں، تو اسے دس لاکھ یورو بطور انعام دیے جائیں گے۔

میئر کے مطابق وہ اس شہر کے عدم وجود سے متعلق لطائف اور سازی نظریے پر یقین رکھنے والوں کو اپنی بات ثابت کرنے کے لیے 'ایک اور منصفانہ موقع‘ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آفر ہر کسی کے لیے ہے اور اس میں 'تخلیقی ہونے کی کوئی حد‘ نہیں رکھی گئی تاہم صرف 'ناقابل تردید ثبوت‘ ہی قبول کیے جائیں گے۔

'بیلےفیلڈ سازشی نظریہ‘ کس کا تھا؟

'مبینہ طور پر‘ جرمن دارالحکومت برلن  سے مغرب کی جانب 330 کلومیٹر کی دوری پر واقع شہر بیلےفیلڈ کاکوئی  وجود ہی نہ ہونے کے سازشی نظریے کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ تو ملکی چانسلر انگیلا میرکل نے بھی مذاق کرتے ہوئے اس شہر کے موجود ہونے پر شک کا اظہار کیا تھا۔

Deutschland alte Rathaus in Bielefeld
بیلے فیلڈ شہر کے ٹاؤن ہال عمارتتصویر: picture alliance/dpa/Bildagentur-online/Klein

یہ نظریہ سن 1993 میں انٹرنیٹ پر سامنے آیا جب آخم ہیلڈ نامی کمپیوٹر سائنس کے ایک طالب علم نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس شہر کا نام تو بہت سنا ہے لیکن وہ کسی ایسے شخص سے نہیں ملے جس کا تعلق واقعی اس شہر سے ہو۔

پھر کِیل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے آخم اور ان کے ساتھی طالب علموں نے مزید 'چھان بین‘ کی تو معلوم ہوا کہ کوئی شخص ایسا بھی نہیں مل رہا جو زندگی میں کبھی بیلےفیلڈ گیا ہو۔

یہ بحث تیزی سے پھیل گئی اور کئی ایسے لوگ سامنے آنا شروع ہوئے، جن کا دعویٰ تھا کہ ان کا تعلق بیلےفیلڈ سے ہے۔ شہر کی اپنی ویب سائٹ بھی تھی، سڑکوں کے نام بھی اور عمارتوں کی تصاویر بھی۔ لیکن طالب علموں نے ہر ثبوت اور دعوے کا جائزہ لیا اور دعویٰ کیا کہ ان میں سے کوئی بات بھی قابل یقین نہیں۔

ایک چوتھائی صدی سے بھی زائد عرصے سے پھیلے ہوئے ایسے سازشی نظریات سے پریشان شہر کے میئر نے اب ان دعووں کو ثابت کرنے کے لیے اس انعامی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔

مقابلے میں حصہ لینے اور شہر کے عدم وجود سے متعلق ثبوت فراہم کرنے کی ڈیڈ لائن چار ستمبر مقرر کی گئی ہے۔ بیلےفیلڈ مارکیٹنگ کے سربراہ مارٹن کنابن رائش کے مطابق، ''ہم پرجوش ہیں اور ہمیں 99.99 فیصد یقین ہے کہ ہم شہر کے وجود کے خلاف لائے جانے والے شواہد کو ناقص ثابت کر دیں گے۔‘‘

اس مقابلے کے بعد اگر بیلےفیلڈ کا کوئی وجود نہ ہونے کے بارے میں کوئی حتمی اور یقنینی ثبوت سامنے نہ آئے تو پھر اس کے بعد بیلےفیلڈ میں جشن منانے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس تقریب میں یہ سازشی نظریہ شروع کرنے والے آخم ہیلڈ بھی شرکت کریں گے۔ ہیلڈ کا کہنا ہے کہ انہیں حیرت ہے کہ ان کا ایک طنزیہ جملہ کتنی تیزی سے پھیلا اور ایک پورا 'سازشی نظریہ‘ بن گیا۔