1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

تیگرائے جنگجو ایتھوپیائی خواتین کے ریپ میں ملوث ہیں، ایمنسٹی

10 نومبر 2021

ایتھوپیائی خواتین نے بتایا ہے کہ تیگرائے کے جنگجوؤں نے ان کے علاقے پر حملہ کرنے کے بعد مار پیٹ کے علاوہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان میں سے کچھ کا تو ان کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/42oju
Äthiopien Mekele | Pro-TPLF Rebellen
تصویر: YASUYOSHI CHIBA/AFP

انسانی حقوق کی تنظیم اینسٹی انٹرنیشنل نے ایتھوپیا کے شمالی علاقے امہارا کے ایک قصبے کی ان خواتین کے انٹرویو کیے ہیں، جنہیں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ اس قصبے پر تیگرائے عسکریت پسندوں نے کچھ ہفتے قبل حملہ کیا تھا۔ ان خواتین نے بین الاقوامی تنظیم کو بتایا کہ حملہ آور جنگجوؤں نے قصبے پر دھاوا بولنے کے بعد گھروں کو لوٹا، خواتین و بچوں کو مارا پیٹا اور بعض خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔

ایتھوپیا کا تنازعہ، مصالحتی عمل کا مطالبہ شدید تر

ایمنسٹی انٹنیشنل کی اس تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس افریقی علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تیگرائے تنازعے کے بعد ہزاروں خواتین کی عزتوں کو تاراج کیا جا چکا ہے۔ ایسا کرنے والوں میں ایتھوپیا اور اریٹیریا کے فوجی بھی شامل ہیں، جن کا نشانہ تیگرائے خواتین تھیں۔

Äthiopien Tigray-Krise | Soldaten TPLF
ایتھوپیا کے ایک مقبوضہ علاقے میں سے گزرتے تیگرائے تنظیم کے مسلح جنگوتصویر: Ben Curtis/AP/picture alliance

جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی بپتا

ان متاثرہ خواتین نے انسانی حقوق کے اس ادارےکو بتایا کہ کس طرح مسلح افراد نے ان پر تشدد کیا اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ ایمنسٹی نے کم از کم سولہ ایسی خواتین کے انٹرویو کیے، جنہیں جنسی استحصال کا سامنا رہا۔ بتایا گیا ہے کہ ان خواتین کو تیگرائے جنگجوؤں نے امہارا علاقے کے قصبے نفاس میوچا میں ریپ کیا تھا۔ امہارا کے قصبے میں تیگرائے پیپلز لبریشن فرنٹ کے مسلح کارکن رواں برس اگست میں داخل ہوئے تھے۔

سولہ میں سے چودہ خواتین نے ایمنسٹی کو بتایا کہ انہیں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے ساتھ تیگرائے محاذِ آزادی کے مسلح کارکنوں نے گن پوائنٹ پر گینگ ریپ کیا۔

تیگرائے تنازعہ، جو قرن افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے

ان میں سے تین خواتین نے بتایا کہ جس وقت ان سے زیادتی کی جا رہی تھی تو اس وقت وہاں پر موجود ان کے بچے خوف سے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تیگرائے کے جنگجوؤں نے انہیں تھپڑوں کے علاوہ ٹھوکریں بھی ماریں اور وہ بندوق تان کر ایسا ظاہر کر رہے تھے کہ  جیسے ابھی گولی چلا دیں گے۔ایک اٹھائس سال خاتون نے بتایا کہ چار مسلح افراد اسے 'امہارا کی گدھی‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور ریپ کے وقت اس کی بیٹی بھی موجود تھی۔

Äthiopien I Krise in Tigray
تیگرائے تنازعے کے بعد گھر بار سے اجڑی ایتھوپیائی خواتینتصویر: Ben Curtis/AP/picture alliance

متاثرہ خواتین نے تصدیق کی کہ جنسی زیادتی کرنے والے مسلح افراد کا تعلق تیگرائے سے تھا کیونکہ ان کی گفتگو کا لہجہ اُسی علاقے کا لگ رہا تھا۔ 

ہسپتالوں کو برباد کر دیا

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ریسرچر فیسیہا ٹیکلے نے امہارا میں متاثرہ خواتین سے ملاقات کر کے ان کی روداد سنی اور قلم بند کر کے ایک مفصل رپورٹ کا حصہ بنایا۔

یہ امر اہم ہے کہ امہارا کا علاقہ ایتھوپیا میں کم آمدنی والا ہے۔ اس علاقے میں لوگ کم اجرت والی ملازمتیں کر کے اپنے خاندان کو پالتے ہیں۔ حقیقت میں ان لوگوں کا کم آمدنی پر ہی گزر بسر ہوتا ہے۔

ایتھوپیا کا بحران: تیگرائی باغیوں نے شہروں پر راکٹ داغ دیے

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس علاقے کی زیادہ خواتین کو صحت کے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ اب حملوں اور جنسی زیادتی کے واقعات نے ان کی ذہنی حالت کو بھی شدید متاثر کر دیا ہے۔ یہ متاثرہ خواتین کئی ایام تک طبی امداد کی بھی منتظر رہیں کیونکہ تیگرائے جنگجوؤں نے سبھی ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچایا اور نصب شدہ طبی آلات اور مشینیں لُوٹ کر ساتھ لے گئے ہیں۔

Äthiopier Flüchten vor Kämpfen in Tigray in den Sudan
متنازعہ پرتشدد علاقے سے فرار ہونے والے ایتھوپیائی خاندانوں کی خواتین اور بچےتصویر: Mohamed Nureldin Abdallah/REUTERS

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل اگنیس کالامارڈ نے تیگرائے کے مسلح کارکنوں کی اس کارروائی کو جنگی جرائم کی صف میں شمار کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مرتبین نے تو ان واقعات کو انسانیت کے خلاف جرائم بھی قرار دیا۔

ع ح/ع ا (اے ایف پی، اے پی)