1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں آئین ساز اسمبلی کے لیے ووٹنگ

23 اکتوبر 2011

تیونس میں پارلیمانی انتخابات کے لیے اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ٹرن آؤٹ توقع سے کہیں زیادہ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/12xBx
تصویر: DW/K.Mabrouka/H.Grott

تیونس کے رائے دہندگان ایک آئین ساز اسمبلی کے لیے اتوار کی صبح ووٹنگ شروع ہوئی۔ منتخب ہونے والے 217 اراکین اسمبلی ملک کے لیے ایک نیا آئین تیار کریں گے اور نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منظم کریں گے۔

پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوئی۔ انتخابات سے قبل کرائے جانے والے جائزوں کے مطابق النہضۃ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے جبکہ پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کے دوسرے نمبر پر رہنے کے امکانات ہیں۔ اس دوران 40 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 13 ہزار مقامی جبکہ 6 سو غیر ملکی مبصرین انتخابی عمل کا جائزہ لیں گے۔

Wahlen in Tunesien
40 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیںتصویر: DW/K.Mabrouka/H.Grott

تیونس میں آمریت سے جمہوریت کی جانب سفر کے سلسلے میں یہ انتخابات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں ایک سو سے زیادہ جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ موزوں امیدوار کا انتخاب آسان نہیں ہو گا کیونکہ ان جماعتوں میں بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعتوں سے لے کر عرب اتحاد کی حامی سوشلسٹ جماعتوں اور سائنٹیفک سوشلزم کی ترجمان جماعتوں تک مختلف طرح کی جماعتیں شامل ہیں۔

بین الاقوامی برادری تیونس کے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حركت النہضۃ اسلاميہ ہے۔ تیونس جیسے سیکیولر معاشرے میں اگر یہ اعتدال پسند اسلامی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس کا گہرا اثر خطے میں موجود اسی طرح کی دیگر جماعتوں پر بھی پڑے گا۔ النہضۃ کے سربراہ راشد غنوشی نے کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے۔ زین العابدین بن علی کے دور میں اس جماعت پر پابندی تھی تاہم تیونس کی عبوری حکومت نے اسے سیاست میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

Tunesisches Generalkonsulat in Bonn FLASH-GALERIE
جرمنی میں رہائش پذیر تیونس کے باشندے بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیںتصویر: DW

تیونس میں ہونے والے انتخابات کوکئی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم ان میں دو وجوہات بہت اہم ہیں۔ ایک تو عرب ممالک میں جمہوریت کے حق میں چلنے والی تحریکوں کا آغاز اسی ملک سے رواں سال جنوری میں ہوا تھا۔ ساتھ ہی 1956ء میں فرانس سے آزاد ہونے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں، جن میں متعدد سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ عرب ممالک میں تیونس کی حیثیت ایک ماڈل ملک کی بھی رہی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی قانونی طور پر یہاں مردوں اور خواتین کو برابر کے حقوق حاصل رہے ہیں۔ تاہم حقیقت میں فوقیت مردوں کو ہی حاصل رہی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام پسند قوتیں برابری کے اس قانون کو ختم کروانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے یاسمین انقلاب کے بعد سےکئی خواتین بڑھ چڑھ کر سیاست مں حصہ لے رہی ہیں۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : ندیم گل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں