1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین روزہ قومی عدالتی کانفرنس ختم: سفارشات پر مبنی اعلامیہ

24 اپریل 2011

پاکستان میں تین روزہ قومی عدالتی کانفرنس آج اتوار کو اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اس کانفرنس میں ملکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے علاوہ تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بھی شریک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/113F1
تصویر: AP

اس نیشنل جوڈیشل کانفرنس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ایک وفد نے بھی خاص طور پر شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک 9 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں لوگوں کو انصاف کی جلد فراہمی، عوامی فلاحی مقدمات کے لیے خصوصی بنچوں کی تشکیل، بدعنوانی اور دھوکہ دہی کے خاتمے، جیلوں میں اصلاحات اور ملکی عدالتی نظام کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ عدلیہ انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا آئینی فرض ہے کہ وہ ریاستی نظام کو قوانین کا تابع رکھے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نامساعد حالات کے باوجود لوگوں کو انصاف کی جلد فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔

’’صرف نظام ہی نہیں بلکہ اس کو چلانے والے افراد بھی اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘

اس کانفرنس کی خاص بات راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے لائے گئے تین قیدیوں کی جیل اصلاحات سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت تھی۔ چیف جسٹس اور دیگر شرکاء نے ان قیدیوں سے جیل کے اعصاب شکن شب و روز کی روداد سنی۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسلم خاکی کا کہنا ہے کہ جیل اصلاحات کے لیے عملی طور پر جیل کے فرسودہ نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔

Supreme Court in Islamabad, Pakistan
پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظرتصویر: AP Photo

''جب حالات گھمبیر ہوں اور زمینی حقائق کو سامنے نہ رکھا جائے تو صرف ٹیبل ورک سے وہ چیزیں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ لیکن نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ ایک آدھ قدم ہم آگے چلیں گے۔ بعد میں اور آگے بڑھا جا سکے گا۔ اس دفعہ جو سفارشات پیش ہوئی ہیں، ان پر پہلے والی سفارشات کی طرح عملدرآمد ہوگا۔ اس میں میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور میں نے تو یہ تجویز دی تھی کہ سول سوسائٹی کے لوگ چھوٹی موٹی لڑائی کر لیں اور تین چار دن جیل میں گزاریں تا کہ پھر انہیں بھی وہاں کے حالات کا اندازہ ہو سکے۔ تین دن بطور ملزم جیل میں رہ کر جو وہاں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، وہ جیل کے عام دورے سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ ویسے تو جیل حکام سب کچھ ٹھیک کر کے دکھا دیتے ہیں اور تین چار قیدی بھی سامنے لا کر کھڑے کر دیتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ تو میرے خیال میں آپ لوگ بھی آئیں، ہم بھی چلتے ہیں، تین چار دن جیل میں رہتے ہیں۔ تبھی جیلوں میں صحیح حالات کا پتہ چل سکتا ہے۔‘‘

Pakistan Streit um Richter Demonstration
پاکستان میں بعض حلقوں کا شکوہ ہے کہ عدلیہ بحالی کی کامیاب تحریک کے بعد بھی وہ عدالتیں انصاف کی بروقت فراہمی میں ناکام ہیںتصویر: Abdul Sabooh

کانفرنس میں شریک ایک خاتون وکیل سرکار عباس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کانفرنس میں شرکت سے وکلاء برادری کو بہت کچھ سیکھنے کے لیے ملا تاہم عدالتی نظام کو لاحق مسائل کے خاتمے کے لیے وقت درکار ہے۔ انہوں نے کہا: ''پہلی بات یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہو اور ہم یہاں بیٹھ کرپورے ملک کے حالات بدل لیں۔ مسائل اتنے زیادہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ راتوں رات صورتحال تبدیل ہو جائے۔ حالات کی بہتری کے لیے یہ ایک کاوش ہے اور اس میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ کانفرنس میں سٹیک ہولڈرز، عام لوگوں اور جیل سے قیدیوں کو بھی بلایا گیا اور ان کے مسائل پر بات چیت کی گئی۔ اس نظام میں بہتری کے لیے تجاویز دی گئیں اور طریقہ کار وضع کیا گیا۔‘‘

راولپنڈی ہائی کورٹ بار کے ایک رکن نذیر راجہ کا کہنا تھا کہ عدالتی کانفرنس میں عام لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’جتنے بھی ادارے ہیں اور جتنی بھی پالیسیاں بن رہی ہیں، وہ پاکستان کے عام شہریوں کے لیے ہیں۔ مجھے یہاں پر جو کمی نظر آئی وہ یہ ہے کہ عام لوگوں کی شرکت بہت کم تھی۔ میرے خیال میں پالیسی بنانے کے لیے عام لوگوں کی رائے بھی ضروری ہے۔‘‘

قومی عدالتی کانفرنس کے دوران تیار کی گئی سفارشات کو اب قومی عدالتی پالیسی سازی کا حصہ بنایا جائے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں