1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیسرا بازو: ریسرچرز کی طرف سے دماغ کو چیلنج

24 مئی 2011

سویڈن سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسانی اعضاء کی تعداد کا تعین حیاتیاتی طور پر نہیں ہوتا۔ سائنسدانوں نے انسان کے تیسرے بازو کے امکانات کے بارے میں بھی فریب نظری پر مبنی ایک خیال پیش کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11Mou
مصنوعی اعضاء کی مدد سے جسمانی معذوری دور کی جا سکتی ہےتصویر: Forschungszentrum Karlsruhe GmbH

ہرانسان کے دو بازو، دو ہاتھ دو پیر اور ایک سر ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ ہمارے جسموں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ اس میں جیسےایک قسم کا کارڈ موجود ہوتا ہے جس پر جسم کے ہر حصے کے لیے ایک مخصوص جگہ مختص ہے۔ علم ادراک کے ماہرین جنہیں انگریزی میں Cognitive Scientists کہتے ہیں، نے گزشتہ چند برسوں میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ دماغ کے اندر پائے جانے والے یہ کارڈز تغیر سے بری نہیں ہوتے۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ وقتی طور پر بے جان چیزوں، مثلا ٹینس کا ایک ریکٹ یا ایک کیپ یا ٹوپی، کو بھی جسم کے اِمیج کے اندر محفوظ کر سکتا ہے۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ انسانی اعضاء کی تعداد کا تعین حیاتیاتی طور پر نہیں ہوتا۔ سائنسدانوں نے انسان کے تیسرے بازو کے امکانات کے بارے میں بھی فریب نظری پر مبنی ایک خیال پیش کیا ہے۔

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم کارولنسکا انسٹیٹیوٹ کے ایک نیورو سائنٹسٹ ہینڈرک اہرسن جانتے ہیں کہ دو کی جگہ تین بازو ہوں تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں’یہ نہایت دلچسپ، سحر انگیز اور خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے پاس صرف ایک ہی دایاں بازو ہے اور میرا تیسرا بازو حقیقی نہیں ہے۔ تاہم میں اس خیال کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتا کہ میرے پاس ایک اور دایاں بازو بھی ہے‘۔

Opfer Landminen Streubomben
مصنوعی ٹانگ کو انسانی ذہن اصلی عُضو کی حیثیت سے قبول نہیں کر سکا ہےتصویر: dpa

دوسرے دائیں بازو کے فریب نظری یا دھوکے پر مبنی خیال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے سائنسدانوں نے ربر کا بنا ہوا ایک بازو بطور تیسرے دائیں بازو کے 150 افراد پر آزمایا۔ یہ تمام افراد اُن کے اس تجربے میں حصہ لے رہے تھے- ان افراد سے کہا گیا کہ وہ اپنے اصلی دائیں بازو کو ٹیبل پر رکھیں۔ اس کے بعد ریسرچرز نے ایک برش سے ان تمام افراد کے دائیں بازو اور اُن کی انگلیوں کو سہلانا شروع کیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہی وقت میں ربر کے بازو اور اُس کی انگلیوں کے ان ہی حصوں کو بھی سہلاتے رہے جن کےاصلی بازو کے حصوں کو بھی وہ سہلا رہے تھے۔

نیورو سائنٹسٹ ہینڈرک اہرسن اپنے تجربے کی تفصیلات یوں بتاتے ہیں ’ہم ایسا کرتے ہوئے دراصل اس تجربے میں حصہ لینے والے تمام افراد کے دماغ کا ٹیسٹ کر رہے تھے۔ ان کے دماغ کوبالکل ایک جیسے دو اعضاء کے بیچ تمیز کرنا تھی کہ کون سا بازو اصلی ہے اور کون سا نقلی؟ حیران کن امر یہ ہے کہ دماغ اصلی اور نقلی میں تمیز نہ کر سکا بلکہ اُس نے دونوں کو اپنے جسم کے حصے کے طور پر، یعنی تیسرے بازو کی حیثیت کوبھی تسلیم کر لیا‘۔ تاہم اس تجربے میں شامل افراد کے دماغوں نے کمپیوٹر ماؤس، لکڑی کے ڈنڈے یا ربر کے بنے ہوئے پیر کو اپنے جسم کے حصے کے طور پر قبول نہیں کیا۔

ماہرین نے کمپیوٹر ٹومو گرافی کی مدد سے یہ پتہ لگایا ہے کہ تیسرے بازو کے لیے دماغ کواضافی سیل یا خلیے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اصلی دائیں بازو کی نسیں نئے سرے سے فعال ہو جاتی ہیں۔ اب نسوں کی ذمہ داری دماغ سے دو دائیں بازوؤں اور دو دائیں ہاتھوں تک حس یا حرکت کو منتقل کرنا بن جاتی ہے۔

Landarzt Lemke aus Neukloster
سویڈش سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تیسرا بازو فالج کے شکار افراد کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتا ہےتصویر: picture-alliance/ZB

سویڈن کے ماہرین کے مطابق تیسرے بازو کا تجربہ فالج کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے- فالج کے مریض جو اپنا ایک ہاتھ نہیں ہلا سکتے، اُن کے جسم کے ساتھ ایک مصنوعی بازو لگایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کی اس ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ان مریضوں کا دماغ مصنوعی بازو کی حرکت کے لیے اسے سگنل بھیج سکتا ہے اور ساتھ ہی دماغ مفلوج بازو کو اپنے جسم کا حصہ تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔

بہت سے عُضو بُریدہ افراد اپنے جسم سے جڑے ہوئے نقلی اعضاء سے مانوس نہیں ہوپا تے اوران کے استعمال میں اُنہیں دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ماہرین نے ایسے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی مصنوعی عضو کو جسم کا ایک اضافی حصہ سمجھیں۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماہرعلم ادراک ہینڈرک اہرسن نے کہا ہے کہ تیسرا بازو فالج کے ایسے مریضوں کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتا ہے جو اپنے ایک مفلوج بازو کو حرکت دینے سے محروم ہوتے ہیں۔

رپورٹ: لانگے میشائیل/ کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں