1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھان شوے کے دورہ بھارت پر انسانی حقوق کی تنظمیوں کو تشویش

21 جولائی 2010

میانمار کے فوجی صدر جنرل تھان شوے کے اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے بھارت کے پانچ روزہ دورے کے دوران ان کی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور صدر پرتیبھاپاٹل سے بھی ملاقاتیں طے ہیں۔

https://p.dw.com/p/OQk8
تصویر: AP

دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی 164تنظیموں کی نمائندہ انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس FIDH کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کوایک خط لکھا گیا ہے، جس میں بھارت کی طرف سے تھان شوے کی میزبانی تنظیم کے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں ہے۔

تنظیم کے مطابق میانمار کی ’جنتا‘ حکومت کی طرف سے انسانی حقوق اور انسانیت کے خلاف کئے جانے والے جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی فہرست کافی طویل ہے۔

Aung San Suu Kyi
بھارت کبھی میانمار کی نظربند اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کا زبردست حامی رہا ہے۔تصویر: AP

FIDH کی طرف سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ میانمار کے فوجی سربراہوں سے بھارت کے تعلقات دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کو زیب نہیں دیتے۔

امریکہ، یورپی یونین اور دیگرکئی ممالک کی طرف سے میانمار کے خلاف کئی طرح کی معاشی اور سفری پابندیاں عائد ہیں، تاہم میانمار کی فوجی حکومت چین، بھارت اور تھائی لینڈ کے تعاون کے باعث ان پابندیوں کی نہ توپرواہ کرتی ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔

بھارت کبھی میانمارمیں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی آنگ سان سوچی کا بہت بڑا حامی رہا ہے۔ تاہم 1990ء کے وسط میں بھارتی حکمت عملی میں توانائی، دفاع اور دیگر ترجیحات عود کر آئیں، جس کے بعد اس کی ہمدردیاں نظربندآنگ سان سوچی کی بجائے حکمران فوجی حکمرانوں کے ساتھ ہوگئیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت کی نظریں میانمار سے تیل درآمد کرنے کے علاوہ دونوں ملکوں کے مشترکہ سرحد کے قریب پنپنے والی علیحدگی پسند تحریکوں پر قابوپانے پر لگی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت میانمار میں چین کے لئے اثرورسوخ بڑھانے کے لئے بھی میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت : عدنا ن اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں