1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی لینڈ: فیس بُک پرعارضی پابندی، شناوترا مخالف مشیران مقرر

عاطف بلوچ28 مئی 2014

تھائی حکومت نے فوجی قیادت کے درخواست پر بدھ کو عارضی طور پر فیس بک تک رسائی بلاک کر دی تاہم فوج کے مطابق یہ مختصر خلل تکنیکی مسئلے کے باعث تھا۔ ادھر شناوترا مخالف دو سابق جرنیلوں کو خصوصی مشیر مقرر کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1C8Te
تصویر: Reuters

تھائی عوام کی ایک بڑی تعداد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک استعمال کرتی ہے۔ بدھ کی دوپہر جب تقریباﹰ نصف گھنٹے کے لیے اس ویب سائٹ کی سروس میں خلل پڑا تو فیس بک کے صارف پریشان ہو گئے۔ تاہم جلد ہی اس سروس کو بحال کر دیا گیا۔ تھائی وزرات برائے انفارمیشن کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی کے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ یہ سروس دانستہ طور پر بلاک کی گئی تھی تاکہ بائیس مئی کی فوجی بغاوت پر تنقید کا سلسلہ روکا جا سکے۔

یہ امر اہم ہے کہ تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کی منصوبہ بندی کے لیے فیس بک سمیت سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر بھی رابطہ کاری کی جا رہی ہے۔

تھائی وزارت کے مطابق فیس بُک پر عارضی پابندی کے علاوہ ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسی سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس کی ملکی انتظامیہ کے ساتھ جمعرات کو ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں احتجاج کی روک تھام کے لیے ان کی مدد حاصل کی جا سکے۔ تھائی لینڈ میں سیکرٹری برائے انفارمیشن کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی سورچائی سری سارکام نے روئٹرز کو بتایا، ’’اس وقت فوج مخالف مظاہروں کے لیے ایک مہم چلائی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں سوشل میڈیا سے معاونت درکار ہے کہ وہ اس مخصوص وقت میں اس طرح کے پیغامات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہماری مدد کرے۔‘‘

Yingluck Shinawatra Thailand
سابق تھائی وزیر اعظم ینگ لک شناوتراتصویر: Reuters

تھائی لینڈ میں بائیس مئی کو فوجی بغاوت کے بعد ملکی پرنٹ اور براڈکاسٹنگ اداروں کو ہدایات جاری کر دی گئی تھیں کہ وہ ناقدانہ رپورٹنگ سے گریز کریں۔

دریں اثناء تھائی لینڈ میں سابق وزیراعظم یِنگ لک شناوترا کے مخالف دو سابق فوجی جرنیلوں کو حکومت کا خصوصی مشیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق یوں ملکی فوج نے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کی گئی ہیں کہ ان مشیران کے پاس کیا اختیارات ہوں گے تاہم یہ واضح ہے کہ یہ شناوترا گھرانے کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

سابق وزیر دفاع جنرل پراوٹ ونگزسوان اور سابق جنرل انوپونگ پاؤچھندا کی مشیروں کے طور پر اس نئی تعیناتی کا اعلان منگل کی رات گئے کیا گیا تھا۔ یہ دونوں سابق فوجی اہلکار حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی سربراہ جنرل پریاتھ چان اوچھا کے قریبی ساتھی ہیں اور انہوں نے 2006ء میں ینگ لک شناوترا کے بھائی اور سابق وزیر اعظم تھاکسن شناوترا کی حکومت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ روئٹرز نے گزشتہ برس دسمبر میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پراوٹ اور انو پونگ نے تھاکسن کی بہن ینگ لک کی حکومت کے خلاف شروع ہونے عوامی مظاہروں کے دوران حکومت مخالف عناصر کی خفیہ طور پر مدد کی تھی تاکہ ینگ لک کو بھی اقتدار سے الگ کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے۔

اسی دوران ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ شناوترا کے حامی ایسے متعدد افراد کو رہا کر دیا گیا ہے، جنہیں فوجی بغاوت کے بعد مظاہروں کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فوجی حکومت نے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کرفیو کے اوقات میں بھی نرمی کر دی ہے۔ تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد فوج پر عالمی دباؤ ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو بحال کر دے۔ اسی تناظر میں واشنگٹن حکومت نے اپنے اس اتحادی ملک کی فوجی امداد بھی معطل کر دی ہے۔