1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تنازعات سے بچ کر نکلنے والے مہاجرین کو بیماریوں کا خطرہ

عاطف بلوچ10 اپریل 2016

جنگ زدہ علاقوں سے فرار ہو کر اور خطرناک مسافتوں کے بعد یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو مختلف بیماریوں کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق کچھ مہاجر کیمپ تو ’وباؤں کے ٹھکانے‘ بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ISpt
Griechenland Mazedonien Flüchtlinge bei Idomeni
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جراثیم کے پھیلاؤ اور مہاجر کیمپوں کی ابتر صورتحال کے باعث مختلف قسم کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں، جن سے نہ صرف یہ مہاجرین طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ یورپی باشندے بھی۔

نو اپریل کو ہالینڈ میں شروع ہونے والی ایک چار روزہ کانفرنس میں ویک اینڈ کے دوران یورپی طبی ماہرین نے اس حوالے سے مفصل بحث کی اور حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ اس صورتحال میں فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

ان ماہرین کے مطابق مشکلات کا شکار اور طویل سفر کرنے کے بعد یورپ پہنچنے والے مہاجرین اپنے جسمانی مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور اگر اس صورتحال میں ان کے لیے حفظان صحت کے مناسب نظام کا بندوبست نہ کیا گیا تو اس تناظر میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

اس کانفرنس میں خبردار کیا گیا ہے کہ پینے کے صاف پانی، جراثیم سے پاک خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث یہ مہاجرین بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک بھی ہو سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ خارش، خسرہ، تپ دق، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ جیسے امراض اور وبائیں پھیل سکتی ہیں۔

وبائی امراض کے ماہر ترک ڈاکٹر ہاکان لیبلے بشؤگلو نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بالخصوص مستقبل میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ’’تپ دق، پولیو اور خسرے کو بالخصوص مہاجرین اور بالعموم یورپی باشندوں کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے ممالک سے لوگ مہاجرت کر رہے ہیں، جہاں یہ بیماریاں عام ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ بہت سے ایسے مہاجرین یورپ میں یا اس براعظم میں پہنچنے سے قبل دوران سفر ایسے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جہاں حفظان صحت کا کوئی نظام نہیں ہے یا نہیں تھا۔ وہاں نہ تو مناسب ٹائلٹس کا انتظام ہے اور نہ ہی ہاتھ دھونے یا نہانے کا۔ ان مقامات پر مہاجرین کو پینے کے صاف پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ ادویات اور خوراک کی کمی کا بھی سامنا تھا۔

اس کانفرنس میں اس امر پر بھی بات کی گئی ہے کہ یورپی یونین کی مہاجرت کی پالیسی میں رابطہ کاری کے مسائل ہیں، جس کی وجہ سے نئے آنے والے مہاجرین کا کئی مراکز پر طبی معائنہ ہی نہیں کیا جا رہا۔

برطانیہ میں لیورپول اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن سے وابستہ ڈاکٹر نکولس بیچنگ نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ مختلف ممالک میں اس حوالے سے مختلف ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یورپی سرحدوں پر مہاجرین کا اچانک طبی معائنہ کیا جا رہا ہے تاہم اس سلسلے میں ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر نکولس بیچنگ کے بقول اس پوری صورتحال میں معاشرتی اور لسانی مسائل بھی درپیش ہیں کیونکہ بہت سے مہاجرین یورپی زبانوں سے ناواقف ہیں اور انہیں طبی عملے یا امدادی کارکنوں سے گفتگو میں مشکلات پیش آتی ہیں اور کئی مقامات پر مہاجرین کو معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ طبی مراکز سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں۔

اڈومینی کا مہاجر کیمپ ’ڈخاؤ کے اذیتی کیمپ جیسا‘

مہاجرین کے اس شدید بحران کی وجہ سے یورپ میں طبی نظام پر بھی بہت دباؤ پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ اس شعبے کے لیے مزید امدادی رقوم کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف کئی ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ مہاجرین کی طرف سے مقامی یورپی آبادیوں کو بیماریاں منتقل کیے جانے کا خطرہ زیادہ نہیں ہے کیونکہ وہ عمومی طور پر یورپی عوام کے ساتھ زیادہ رابطے میں نہیں ہوتے بلکہ اپنی کمیونٹی میں ہی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس تناظر میں اس کانفرنس میں کہا گیا کہ حقیقی خطرہ مہاجرین کو ہی لاحق ہے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق احتیاطی تدابیر پر رقوم خرچ کرنے سے یورپی نظام صحت کو بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں