1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تنازعات اور مسلح تصادم کے واقعات، خواتین و بچوں کی صحت متاثر

عبدالستار، اسلام آباد
25 جنوری 2021

دنیا بھر میں تنازعات اور مسلح تصادم کے واقعات کی وجہ سے چھ سو تیس ملین خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہوئی ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بھی ایسی خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3oOEd
تصویر: DW/I. Jabeen

بین الاقوامی ماہرین کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے تنازعات میں گھرے ہوئے علاقوں میں خواتین اور بچوں کی صحت کو کوئی ترجیح نہیں دی گئی اور یہ کہ عالمی برادری اس محاذ پر ناکام ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مندرجات

آغا خان یونیورسٹی پاکستان، دی ہاسپٹل فار سک چلڈرن ٹورانٹو اور دیگر ممالک کے اداروں نے اس رپورٹ کو مرتب کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جدید دور کی جنگ نے بنیادی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے صحت کے مسائل مزید پیچدہ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''آج دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی برادری ان کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔‘‘

اس رپورٹ میں تنازعات کے بالواسطہ اثرات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، ''ایسی ہر دس میں سے ایک خاتون اور ہر چھ میں سے ایک بچہ یا تو تنازعات کی وجہ جبراﹰ بے دخل کر دیے گئے یا پھر وہ ایسے علاقوں کے قریب رہ رہے ہیں، جو تنازعات کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی خواتین اور بچے پاکستان، نائجیریا اور بھارت میں رہ رہے ہیں۔‘‘

Pakistan Hitzewelle
تصویر: Reuters/A. Soomro

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور صحت

کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس سے نہ صرف تیس ہزار سے زائد پاکستانی مارے گئے بلکہ اربوں ڈالر کا انتظامی ڈھانچہ بھی تباہ ہوا۔ پاکستان میں طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے ملک کا نظام صحت بھی بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ وسائل کا ایک بڑا حصہ جنگی اخراجات پر لگا دیا گیا، جس کی وجہ سے صحت کا بجٹ بھی متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ دہشت گردانہ کارروئیواں کی وجہ سے نہ صرف جمسانی معذوری بڑھی بلکہ نفسیاتی مسائل بھی بڑھے۔ ان تنازعات سے پاکستان کے سبھی علاقے متاثر ہوئے لیکن کئی مبصرین کے خیال میں خیبر پختونخوا، سابقہ فاٹا اور بلوچستان ان متاثرہ علاقوں میں سر فہرست ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا موقف

پاکستان میڈیکل ایسویشن سے وابستہ ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا کہنا ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں ذہنی اور نفسیاتی امراض بڑھے ہیں جب کہ عمومی طور پر خواتین اور بچوں کی صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''ظاہر ہے ہمارے ہاں جو طالبان عسکریت پسندی چلی، یا بلوچستان میں جو حالات رہے، اس کی وجہ سے کسی کا بھائی اور کسی کا باپ مارا گیا، جس کی وجہ سے ایک طرف نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف کمانے والے افراد کی موت کی وجہ سے لوگوں کے مالی وسائل بھی محدود ہو گئے، جس کی وجہ سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے۔ ان کی بیماریوں میں وسائل کی کمی کی وجہ سے شدت آئی اور اس کا کسی نہ کسی طرح تعلق ان مسلح تنازعات سے بھی ہے، جن کا ملک نے سامنا کیا۔‘‘

ڈاکٹر شورو کا مزید کہنا تھا کہ ان کی نظر سے کوئی ایسے اعداد و شمار نہیں گزرے جو حکومت نے مرتب کیے ہوں، ''میرے علم میں نہیں کہ حکومت نے کوئی سروے کیا ہو یا یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ اس جنگی حالت اور تنازعات کی وجہ سے کتنی خواتین یا بچوں کے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل بڑھے یا ان کی صحت کس کس طرح متاثر ہوئی۔‘‘

بلوچستان کی حالت

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی سابق رکن اور نیشنل پارٹی کی رہنما یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ماؤں کی شرح اموات پہلے ہی بہت زیادہ تھی۔ وہ کہتی ہیں، ''اس میں عسکریت پسندی کی وجہ سے شدت آئی، کیونکہ ہسپتال تو دور کی بات، کئی اور سرکاری عمارتیں بھی کشیدگی کے شکار علاقوں میں بند پڑی ہیں یا غیر فعال ہیں۔ خاران، پنجگور، گوادر کے نواحی علاقے، تربت کے دیہی علاقے، ماشے، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سمیت کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سرکاری عمارتیں خالی پڑی ہیں۔ تمام علاقوں میں نہیں، لیکن کشیدگی والے علاقوں میں۔ تو اس صورت حال سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہوئی ہے۔ مگر بدقسمتی یہ کہ حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود ہی نہیں۔‘‘

خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع

پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا ہے چالیس سال سے یہ خطہ جنگ کی زد ہے، جس کی وجہ سے صحت کا نظام عمومی طور پر بہت متاثر ہوا ہے اور اس کا اثر بچوں اور خواتین پر زیادہ پڑا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ماں اور بچے کی شرح اموات بعض معاملات میں افریقہ کے ممالک سے بھی بد تر ہے، ''کے پی اور فاٹا میں جنگی حالات اور طالبان عسکریت پسندی کی وجہ کئی ہسپتال اور بنیادی صحت یونٹس تباہ و برباد ہو گئے۔ اس وجہ سے بیماریاں مزید پیچیدہ ہوگئیں۔ بڑے پیمانے پر تشدد کی وجہ نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسے مسائل میں اتنا اضافہ نہیں دیکھا جتنا گزشتہ پندرہ برسوں میں۔‘‘

ڈاکٹر میاں افتخار حسین کے مطابق جنگی حالات کی وجہ سے ہر دس کلومیٹر کے فاصلے پرچیک پوسٹیں بنائی گئیں، ''مریضوں کو گھنٹوں لائنوں میں لگنا پڑتا تھا۔ اس طویل انتظار کی وجہ سے حاملہ خواتین کو کئی مواقع پر بروقت طبی امداد نہ مل سکی جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے امراض میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں بلکہ کئی خواتین کی موت بھی واقع ہو گئی۔‘‘

طبی ایمرجنسی کے اعلان کی ضرورت

چائلڈ رائٹس موومنٹ پاکستان کے سابق نیشنل کوآرڈینیٹر ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ حکومت کو جنگ سے متاثرہ علاقوں میں طبی ایمرجنسی لگا دینا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں، ''سابقہ فاٹا اور دوسرے جنگی علاقوں کے بچے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی نفسیاتی صحت پر بھی اس جنگ نے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ لہٰذا حکومت میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر کے طبی سہولیات میں اضافہ کرے اور اس کے لیے خصوصی فنڈز جاری کرے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے اس بارے میں حکومت کے کئی ذمہ دار اہلکاروں سے اس بارے میں ان کی رائے جاننے کے لیے فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن کسی بھی فون کال کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔