1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تمام افغان مل بیٹھیں تو امن ممکن ہے، کرزئی

19 اپریل 2019

سابق افغان صدر حامد کرزئی نےکہا ہے کہ اگر تمام افغان مل بیٹھیں اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بہ شمول طالبان، مذاکرات میں شامل ہوں، تو افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/3H62n
Russland Moskau | Treffen von Politikern aus Afghanistan mit Taliban-Vertretern | Hamid Karzai
تصویر: Reuters/M. Shemetov

جمعے کے روز اپنے بیان میں حامد کرزئی نے کہا کہ  قطر میں مختلف افغان دھڑوں کے درمیان ملاقات غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ قطری دارالحکومت دوحہ میں اس اختتامِ ہفتہ پر امن مذاکرات کا انعقاد کیا جانا تھا، تاہم اس میں شرکاء کے حوالے سے پائے جانے والے عدم اتفاق کی بنا پر اسے ملتوی کر دیا گیا۔ ان مذاکرات میں طالبان نے پہلی مرتبہ یہ کہہ کر حکومتی وفد سے بھی بات چیت پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ انہیں عام افغان شہری سمجھا جائے گا۔ اگر ان مذاکرات کا انعقاد ہو جاتا، تو یہ 17 برس میں پہلا موقع ہوتا، جب طالبان اور کابل حکومت کے وفود کی براہ راست ملاقات ہوئی۔

قطر مذاکرات معطل، افغان عمل کے لیے ایک دھچکا

250 افراد کا افغان حکومتی وفد: دوحہ میں شادی نہیں ہے، طالبان

طالبان اس سے قبل کابل حکومت کو ’امریکی کی کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ ہر طرح کی بات چیت سے انکار کرتے آئے ہیں، تاہم امریکی دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے بالآخر ان کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

جمعرات کے روز تاہم قطری مرکز برائے تنازعات اور ہیومینیٹیرین اسٹیڈیز، جس کے زیرانتظام یہ مذاکرات ہونے تھے، نے اعلان کیا گیا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکاء کے ناموں کے حوالے سے عدم اتفاق پر یہ مذاکرات ملتوی کیے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ بات چیت میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ان مذاکرات کی منسوخی کا الزام کسی ایک فریق پر عائد کرنے کی بجائے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مذاکرات کو ممکن بنانے کے لیے اپنی طاقت استعمال کرے۔

انہوں نے امریکی امن مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی بھی تعریف کی اور کہا کہ افغان تنازعے کے حل کے لیے وہ موزوں ترین شخصیت ہیں۔

حامد کرزئی کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ امریکا افغانستان میں کسی طرح کا سمجھوتا چاہتا ہے۔ مگر میرے نزدیک امریکا کو اس معاملے میں مزید واضح روڈمیپ بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ عمل آگے بڑھ سکے۔ ‘‘

ایک افغان حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ  ان مذاکرات میں شرکت کے لیے افغان حکومت کی جانب سے 243 افراد کے نام پیش کیے گئے، تاہم یہ نام افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے دی گئی 250 افراد کی فہرست سے مختلف تھے۔ افغان صدر اشرف غنی کی فہرست میں زیادہ خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔

جمعے کے روز ان مذاکرات کی منسوخی پر طالبان نے کہا تھا کہ اشرف غنی نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ دوسری جانب اشرف غنی نے یہ الزام طالبان پر عائد کیا تھا کہ انہوں نے قطر کو ایک مختلف فہرست قبول کرنے کا کہا اور وہ فہرست قبول نہ کی گئی، جس میں حکومتی وزراء اور 44 خواتین شامل تھیں۔

ع ت، ع ح (اے پی، روئٹرز)