1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیم برائے پائیدار ترقی کانفرنس

عدنان اسحاق11 اپریل 2009

پاکستانی نوجوانوں میں اس جانب رجحان تو پایا جاتا ہے لیکن دیگر ملکوں کے مقابلے میں ابھی کافی کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملازمت کے کم مواقع ہیں۔ پروفیسر سجاد

https://p.dw.com/p/HUNk
بون میں کانفرنس ہال کا ایک منظرتصویر: dpa

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے بہبود اطفال یعنی یونیسف کے زیراہتمام جرمن شہر بون میں ایک کانفرنس ہوئی۔ جس کا موضوع تھا،Education for Sustainable Development یعنی تعلیم برائے پائیدارترقی۔31 مارچ سے 2 اپریل تک جاری رہنے والی اس بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے کوئی سات سو مندوبین شریک تھے۔ جن میں یونیسکو کے نمائندے، مختلف ممالک کے وزارء تعلیم اورماہرتعیلم شامل تھے۔ مندوبین نے مختلف سیمینارز اور ورکشاپس کی مدد سے پائیدار ترقی کی تعلیم کے شعبے میں اہمیت کو اجاگر کیا۔

یونیسف کے زیر اہتمام اس تین روزہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے پروفیسر سجاد حیدر رضوی جن کا تعلق انڈس اسکول سے ہے۔ پروفیسرسجاد کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں اس جانب رجحان تو پایا جاتا ہے لیکن دیگر ملکوں کے مقابلے میں ابھی کافی کم ہے۔ انہوں نے مزید کہا اس کی سب سے بڑی وجہ دیگر شعبوں کے مقبلے میں ملازمت کے مواقعوں کی کمی ہے۔ تا ہم پاکستانی معاشرے کو تعیلم برا ئے پائیدار ترقی کی اشد ضرورت ہے۔

انڈس اسکول کے دو بنیادی حصے ہیں۔ ایک حصہ کا تعلق ہے نوجوانوں کی تربیت اور ترقی سے جبکہ دوسرا ہے اساتذہ کی تربیت سے۔ اس کے علاوہ بھی اس ادارے میں کئی اور منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ انڈس اسکول کا صدردفترلاہور میں ہے جبکہ شمالی پاکستان میں بھی اس کے تربیتی مراکز ہیں۔ انڈس اسکول میں نوجوانوں اوراساتذہ کو مختصراور طویل دورانیے کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔ تا کہ وہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں واپس جا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے آگاہ کر سکیں۔

انڈس اسکول ایک غیر سرکاری تنظیم ہے اور اسے Indus Foundation for the Human Development کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ادارہ 1996 سے کام کر رہا ہے اور2005 سے یہاں ماحولیاتی تعلیم کا ایک پروگرام بھی شروع کیا گیا۔ پروفیسر سجاد حیدر نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ہے کہ ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے اور ایسی ترجیحات طے کی جائیں جس سے کرہ ارض کو آئندہ نسلوں کے لئے زیادہ سے زیادہ رہائش کے قابل بنایا جا سکے۔

بون میں ہونے والی یہ بین الاقوامی کانفرنس جرمنی کی وزرات برائے تعیلم و تحقیق کے زیراہتمام منعقد ہوئی ۔ تعلیم برائے پائیدار ترقی یا ESD کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسے مستقبل کے لئے امید قرار دیا جا رہا ہے۔تعلیم برائے پائیدار ترقی کانفرنس میں کئی ممالک نے اپنے اسٹال بھی لگائے تھے۔ ان اسٹالز پرﺍی ایس ڈی سے متعلق مختلف پروجیکٹ کی تفصیلات دی جا رہیں تھیں۔ ان میں سے ایک پروجیکٹ تھا Youth exchange and Sustainbale life style.۔ اس اسٹال پر موجود تھیں مورگن اسٹریکر ن کا تعلق فرانس سے تھا۔

مورگن اسٹریکر اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ماحولیات کے یوتھ ایکسچینج پروجیکٹ کے لئے کام کرتی ہیں۔ یہ پروجیکٹ نوجوانوں کے لائف اسٹائل سے متعلق ہے اور یہ اقوام متحدہ کے ادارے برائے بہبود اطفال UNICEF اور UNEF کا مشترکہ پروجیکٹ ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد نوجوانوں کوایسا لائف اسٹائل اختیار کرنے کی ترغیب دینا ہے جو ماحول دوست ہو اور جس سے پائیدار بنیادوں پر ماحولیات کا تحفطّ ممکن ہوسکے۔

Sustainable Life styles کا مقصد بتاتے ہوئے مورگن اسٹریکر نے مزید کہا کہ نوجوان اپنی زندگی میں ایسا طریقہ کار اختیار کریں جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جائے اور معاشرے پر اس کے کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم ایسے نوجوانوں کو بھی ہدف بنانے کی کوشش کرتی ہے جو رسمی یا غیررسمی تعلیمی سیکٹر میں ہیں، ان کی روز مرہ زندگی کے طریقہ کار اور کھانے پینے کی عادات کو اس طرح بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ تحفّظ ماحولیات کو یقینی بنایا جاسکے۔ چالیس ملکوں میں جاری اس منصوبے میں پندرہ سے پچیس سال کے درمیان کے نوجوانوں کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے۔

اس پروجیکٹ کے طریقہ کار کے بارے میں مورگن اسٹریکر نے بتایا کہ وہ نوجوانوں کو یہ بتاسکیں کہ ہرروز جب نوجوان صبح نیند سے اُٹھیں اور ناشتہ کرنے کا ارادہ کریں، تووہ فیصلہ ماحول کا خیال کرتے ہوئے کریں۔ صرف اتنا ہی نہیں، اسکول کیسے جایا جائے، کیسے کپڑیے خریدیں، لیکن اس سلسلے میں ہم نوجوانوں سے زور زبردستی نہیں کرتے ہیں کہ وہ صرف Eco یا ماحول دوست مصنوعات ہی خریدیں ۔

مورگن کے خیال اس پروجیکٹ کا انحصار ہر ملک کے قوانین اور وہاں کے رواج پر ہے۔ مثال کے طور پر وہ فرانس میں بہت کام کرتی ہیں اور فرانس میں ایسی مصنوعات خریدی جا سکتی ہیں جن پر ماحول دوست کا لیبل لگا ہوا ہو۔ یعنی جن میں کاربن مواد کم سے کم ہے اور جو ماحولیات کے لئے سازگار ہوں۔