1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: کورونا وائرس قیدیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ

5 نومبر 2020

ترک عدلیہ اپنے قیدیوں کے ساتھ سخت بے مروتی کا سلوک کرتی ہے - بہت سارے بیمار یا جسمانی طور پر معذور قیدی پہلے ہی جیل کی نا گفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہیں اب کورونا کی وبا ان کے لیے اور بھی بڑا خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3kuoI
Türkei Gefängnisausbruch
تصویر: AFP/Getty Images

قیدی سردال یلدرم مکمل طور پر یعنی 98  فیصد معذور ہے۔ تاہم اسے طبی علاج میسر نہیں ہے۔ یہ استنبول کی ایک ہائی سکیورٹی جیل 'میترس‘ کے ایک چھوٹے سے سیل میں دو دیگر معذور قیدیوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ فروری 2002 ء میں فورنسک میڈیسن کے حکام نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یلدرم اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے جیل میں رہ کر اپنی سزا نہیں کاٹ سکتا۔ تاہم پراسیکیوٹر نے ان کی رہائی کی درخواست مسترد کر دی۔

ڈوئچے ویلے کو بیان دیتے ہوئے یلدرم کے بھائی نے بتایا کہ یلدرم کا جگر خراب ہے اور اس کے جسم پر متعدد زخموں کے نشان ہیں۔ اس کے باوجود وہ چھ ماہ سے آپریشن کا منتظر ہے۔ اسے صرف اینٹی بائیوٹکس دی جا رہی ہیں جو اب کام بھی نہیں کر رہی۔ اس کی حالت تیزی سے مزید خراب ہو رہی ہے۔ یلدرم کے بھائی کا کہنا ہے کہ اتنے شدید نوعیت کے مرض کو اب کورونا کی وبا کے سبب مزید مشکلات کا سامنا ہے۔ 'میترس‘ جیل میں پھپھڑوں کے عارضے والے مریضوں کے کیسز میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔

 

Türkei Coronavirus Entlassung tausender Häftlinge
ترکی کی بیشتر جیلوں میں کورونا بحران کے سبب قیدیوں کی حالت ابتر۔تصویر: DHA

کیا صحت کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں؟

کوچ اور یلدرم جیسے قیدیوں کے کیسز استثناء نہیں ہیں۔ ترک انسانی حقوق کی تنظیم IHD کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق کم از کم 1605 بیمار یا معذور افراد جیل میں ہیں جن میں سے604  شدید نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ آئی ایچ ڈی کے مطابق، ''قیدیوں کی طرف سے شکایات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے وہ  دیکھ رہے ہیں کہ ان کے صحت سے متعلق حقوق کے خلاف ورزی ہورہی ہے۔‘‘ کئی نقادوں کے لیے یہ صورتحال  سمجھ سے باہر ہے۔ 'سول سوسائٹی ایسوسی ایشن فار پرسن ان پرسن‘  (سی آئی ایس ایس ٹی) کے کوآرڈینیٹر بیریوان کورکوت کے مطابق انتہائی ضروری معاملات میں قیدیوں کو صرف ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ کورکوت نے کہا ، ''بہت سارے بیمار قیدی موجود ہیں جن کا علاج نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ اگر قیدی کورونا وائرس کے وبائی مرض سے بچ بھی گئے تو بھی وہ مر جائیں گے کیونکہ ان کی دوسری بیماریوں کا علاج نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ ترکی میں 355 جیلیں ہیں جہاں تقریباً 3 لاکھ قیدی ہیں۔ ان وبائی امراض کی وجہ سے ، اپریل کے اوائل میں ہی تقریبا 90 ہزار قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ ان میں متعدد پرتشدد جرائم کے مرتکب مجرم بھی شامل تھے تاہم کوئی صحافی یا حزب اختلاف کا رکن نہیں۔ اور ان بیماریوں میں مبتلا کوئی قیدی بھی نہیں ہے جو در حقیقت کورونا وبائی امراض کی وجہ سے خاص طور پر زیادہ خطرہ میں نہیں۔

Türkei Coronavirus Entlassung tausender Häftlinge
چند ترک جیلوں سے ہزاروں قیدیوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خوف کے سبب رہا کر دیا گیا۔تصویر: DHA

کورونا بدستور حالات خراب کرتا جارہا ہے

رواں برس اپریل میں ترک پارلیمان نے ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت ہزاروں قیدیوں کو ملک کی مختلف جیلوں سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد کورونا کی مہلک وبا کے تیزی سے پھیلاؤ کو روکنا تھا کیونکہ ترکی کی بیشتر جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں۔ 

اکتوبر کے آخر میں جاری کردہ آئی ایچ ڈی کی ایک رپورٹ کے مطابق، جولائی، اگست اور ستمبر میں 14 قیدی ہلاک ہوگئے تھے جن میں تین کینسر کے مرض اور چار دیگر بیماریوں میں مبتلا  تھے۔

''ہم دوسرے قیدیوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں جو COVID-19 کی وجہ سے جیل میں مرے تھے۔‘‘ ایچ ڈی پی کے سیاستدان نے کہا، ''لیکن وزارت انصاف ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیتی اور خاموش رہتی ہے۔‘‘

اس بارے میں تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار جون کے وسط سے منظر عام پر آئے ہیں۔ اس وقت ، محکمہ انصاف نے اعلان کیا کہ COVID-19 سے چھ قیدی ہلاک ہوگئے  ہیں۔ تب کووڈ انیس کے 72 ایکٹیو کیسز موجود تھے۔

ک م، ع ت (اُنکر پیلن) 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں