1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں نئی دستوری ترامیم اور ممکنہ سیاسی کشیدگی

13 مئی 2010

ترکی کے صدر عبد اللہ گُل نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ دستوری ترمیم کے مسودے کی توثیق کردی ہے۔ ان ترامیم کو بعض ترک حلقے حلقے متنازعہ قرار دیتے ہیں۔ اب ان ترامیم کی حتمی توثیق کے لئے ریفرنڈم کا آخری مرحلہ باقی ہے۔

https://p.dw.com/p/NMXy
تصویر: AP

عوامی توثیق کے بعد ترک عدلیہ اور فوج کے اختیارات میں واضح کمی ہو جائے گی۔ یہ دستوری ترمیم گزشتہ چند ماہ سے سیکیولر اپوزیشن اور مذہبی عقائد سے متاثر حکمران جماعت کے درمیان کشیدگی پیدا کئے ہوئے ہے۔ عبد اللہ گل نے اس پیکج کی منظوری دینے کے بعد اسے وزیر اعظم کے دفتر روانہ کردیا ہے۔ اس دستوری پییکج پر ریفرنڈم کا انعقاد اگلے چند ہفتوں میں متوقع ہے۔

ترکی کے دستوری منظر پر حکمران جماعت کی جانب سے کچھ ماہ قبل ان ترامیم کے متعارف کروانے کا عندیہ وزیر اعظم رجب طیب اردوغان نے دیا تھا۔ اس کے مندرجات کی تیاری حکمران جماعت کے قانونی مشیروں نے انتہائی باریک بینی سے مکمل کی تھی۔ اس پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کی جانب سے گزشتہ ہفتے کے دوران دی گئی تھی۔ دستوری پیکج کثرت رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ اگر دوتہائی ووٹ دستیاب ہوتے تو یہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ترک آئین کا حصہ بن جاتا۔ اُس قانونی کمی کو پورا کرنے کے لئے ریفرنڈم تجویز کیا گیا تھا۔

Erdogan Empfang in der Türkei nach Davos Besuch
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغانتصویر: picture-alliance/ dpa

حکمران جماعت کا خیال ہے کہ دستوری ترامیم سے سن 1982 میں فوجی حکومت کے دوران مرتب اور منظور کئے جانے والے دستور میں جمہوری روایات کی شمولیت سے ترکی میں جمہوری اقدار و رویے کو فروغ اور تقویت حاصل ہو گی۔ حکمران جماعت نے ان دستوری ترامیم کی حتمی منظوری ہونے پر اس کو ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کی جانب ایک بڑی پیش رفت سے تعبیر کیا ہے۔

ان ترامیم سے ترک فوج کے اختیار اور دستوری عدالت کے دائرہ اختیار میں یقینی طور پر کمی ہو گی۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کڑوی گولی کسی طرح سیکیولر فوج اور عدالت نگلے گی۔ یہی اگلے ہفتوں میں اہم ہے۔ دستوری عدالت میں ججوں کی تعداد میں اضافہ اور کچھ کی تعیناتی بذریعہ پارلیمنٹ سے کروانے کو تجویز کیا گیا ہے۔ مجوزہ دستوری پیکج کی حتمی منظوری سے فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار خاصا محدود ہو جائے گا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس حوالے سے اگلے دنوں میں فوج یا دستوری عدالت کوئی عملی قدم تو نہیں اٹھاتی۔ اگر ایسا ہوا تو ترکی میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ اور بحرانی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔

Deutschland Frankfurt Buchmesse 2008 Partnerland Türkei Abdullah Gül
ترک صدر عبداللہ گُلتصویر: AP

ترکی کی اپوزیشن جماعت نے ان ترامیم کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ان کی منظوری کے پس پردہ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اپنے مذہبی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اس تنقید کو رجب طیب اردوغان کی پارٹی یکسر رد کرتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم دستور کو مزید جمہوریت نواز بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

اپوزیشن جماعت کے مطابق یہ ترامیم موجود دستور کی روح کے منافی ہیں۔ اپوزیشن ری پبلکن پارٹی نے جمعرات کو ان ترامیم کے خلاف دستوری عدالت میں ایک اپیل دائر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ پارٹی کے مطابق عدالت سے استدعا کی جائے گی کہ وہ اس آئینی پیکج کو یکسر منسوخ قرار دے۔

اگر دستوری عدالت اس پیکج کو منسوخ کردیتی ہے تو ترکی میں آئینی خلاء پیدا ہونے کا امکان ہے اور اس کے بعد وزیر اعظم اردوغان یقینی طور پر سن 2011 میں ہونے والے انتخابات کو اسی سال شیڈول کروانے کے لئے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ حکمران جماعت اور ترکی کے چیف پراسیکیوٹرز کے درمیان مسلسل عدم اعتماد کی کیفیت موجود ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید